غسان کنفانی سے گفتگو (ترجمہ: حماد الرحمان)

 In ترجمہ

طاقت کی جدلیات انسانی معاشرے کی تشکیل کا بنیادی عنصر ہیں۔ اس لیے ایک گروہِ انسانی کا طاقت کے حصول کی کوشش کرنا اور دوسرے گروہ کا مزاحمت کرنا، نیچرل آرڈر کا ایک حصہ ہے۔ اور یہ مزاحمت کرنے کا وصف اجتماعی و معاشرتی اور انفرادی دونوں سطح پر حمیتِ انسانی کا اظہار کہلاتا ہے۔ اور اسی طر ح مزاحمت کا ایک سبب نظریات، عقائد اور ثقافتی تصورات بھی ہوتے ہیں جو مزاحمت کے عملی جواز کی تشکیل کرتے ہیں۔ فاتح اور مفتوح دنیا کی معلوم تاریخ میں دو واضح گروہ موجود رہے ہیں مگر استعماری فکر میں مفتوح نام کی کوئی شق شامل نہیں اور مستعمَر کی یہی دیگریت اس کےلیے فنا کا مکمل پس منظر و پیش منظر ہے۔ دور استعمار میں مستعمَر کو کوئی بھی ’’حقوق‘‘ نہیں ملتے بلکہ ادنی سی وجودی شرط پر زندہ رہنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔ اور مستعمَرکے لیے یہی دیگریت نابودیت کے متساوی ہوتی ہے۔ اور نابودیت اپنے عمل میں تشدد کے ذریعے اظہار پاتی ہے۔ امریکہ میں جس پیمانے پر (ثقافتی اور سماجی سطح پر )سرخ فاموں کی نسل کشی ہوئی، اسی پیمانے پر استعمار نے آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں نسل کشی کی اور پاکستان میں یہی عمل غیر محسوس طریقے سے جاری ہے۔  فلسطینی مسلمانوں کا بے گھر ہونا، ان کے زیتون کے باغات کا اجڑنا، وطن ہوتے ہوئے بے وطنی کی زندگی گزارنا اور جلاوطن لوگوں کو واپس آنے سے روکا جانا اسی بانگِ استعمار کا تسلسل ہے۔ اور یہی صورتحال ہمارے کشمیر میں در پیش ہے جہاں فاشسٹ ہندی حکومت ہماری ثقافتی اور سماجی و معاشرتی تحلیل کررہی ہے۔ استعماری پشت پناہی کے خمار میں اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ مکمل استعماری مظہر ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے سرزمین فلسطین پر ایک عرصے کے بعد دوبارہ سرخ فاموں کی سی نسل کشی کی یاد تازہ کردی۔ اور غسان کنفانی اسی فطرتی امر کا بھرپور اظہار ہیں جو مزاحمت کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔ غسان ایک صاف دل و صاف گو فلسطینی عرب تھے جنہوں نے اس سویرے میں آنکھ کھولی جب ان کی قوم کی غلامی کا گویا آغاز ہوچکا تھا۔ مگر وہ مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے اور اپنے شاہکار قلم اور بے مثل عمل سے مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کر گئے۔ ان کے قلم نے عربی ادب کے کئی غیر معمولی فن پارے تخلیق کیے۔ اور انہوں نے اپنی صحافت کے ذریعے اپنی قوم کے موقف کی مکمل اور مدلل نمائندگی کی۔ غسان نے اپنی عملی زندگی بطور ایک کامریڈ گزاری۔ وہ کیمونسٹ آدرش کے قائل تھے اور پوری زندگی انہی پر عمل پیرا رہے۔ غسان شمالی فلسطین کے شہر عکہ میں ١٩٣٦ ء میں پیدا ہوئے۔ پھر انہوں نے ١٩۴٨ میں فلسطین سے لبنان اور پھر شام کی جانب ہجرت کی اور ١٩۷٢ بیروت میں کار دھماکے میں اپنی بھتیجی کے ساتھ شہید کردیے گئے۔ انہوں نے قریب ١٨ کتب تحریر کیں اور ثقافت،سیاست اور فلسطینیوں سے متعلق ہزاروں کی تعداد میں مضامین اور کالم لکھے۔ ان کے افسانے، مختصر کہانیاں، اور ڈرامے چار جلدوں میں چھپے ہیں۔ بیس سے زائد ملکوں میں قریب سترہ زبانوں میں ان کا کام ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اردو زبان میں میری معلومات کے مطابق ان کے دو افسانے ہی عربی سے اردو میں ترجمہ ہوئے ہیں جنہیں ہمارے ایک فاضل دوست صبیح ہمدانی نے ترجمہ کیا ہے، اور ان کے دو ناولوں پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کی انسان دوستی کے متعلق ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ جب یہ ہجرت کر کے شام پہنچے تو وہاں پر پہلے سے ہی بہت سے فلسطینی عرب موجود تھے۔ یہ وہاں ہر ایک کے غم میں شریک ہوتے اور اس کی صورت کچھ یوں تھی کہ جب یہ کسی کو پریشان دیکھتے اور دریافت کرنے پر معلوم ہوتا کہ اس کے والد، بھائی یا والدہ فلسطین رہ گئے ہیں یا شہید ہو گئے تو یہ ان کے غم میں شراکت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ بالکل تمہاری طرح میرے بھی والد یا بھائی اور والدہ شہید کردیے گئے ہیں تو مبتلا به ان کے اس طرح غم کو سانجھا کرنے سے ذہنی سکون پاتا اور غم کو ہلکا محسوس کرتا۔ذیل میں غسان کے انٹر ویو کے ایک میسر حصے کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جو ان کی حریتِ فکر اور مظلوم کی مصیبت کا احساس رکھنے کے مکمل جذبے کا اظہار ہے۔

صحافی کی انقلابی رہنما غسان کنفانی سے گفتگو

(یہ پاپولر فرنٹ ہی تھا جس نےاردن کے صحرائی ‘ریولوشنری’ ہوائی اڈے سے تین جیٹ طیارے ہائی جیک کر نے کے بعد تباہ کردیۓ۔ اور یہ پاپولرفرنٹ ہی تھا جس نے قاہرہ میں پین امریکن جمبو طیارے کو ڈائنامائیٹ سے تباہ کردیا۔ بیروت میں پاپولر فرنٹ کے لیڈر غسان کنفانی ہیں۔ وہ فلسطین میں پیدا ہوئے تھے مگر 1948 میں یہاں آگئے جسے وہ ’’صیہونی دہشت گردی سے آزادی‘‘ کہتے ہیں۔ تب سے وہ صیہونی یہودیوں کی تباہی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔)

غسان کنفانی: میں جانتا ہوں کہ دنیا کی تاریخ ہمیشہ کمزور لوگوں کی طاقتور لوگوں سے لڑائی کی تاریخ رہی ہے۔ کمزور لوگ جن کا مطالبہ درست ہوتا ہے اور طاقتور لوگ اپنی طاقت کے بل بوتےپران کا استحصال کرتے ہیں۔

صحافی: آپ دوبارہ جنگ کی بات کرتے ہیں جو کہ کئی ہفتوں سے اردن میں جاری ہے جس میں آپ کی تنظیم بھی ایک طرح سے شامل ہے، آخر اس سب کا حاصل کیا ہے؟

غسان کنفانی: ایک چیز، کہ ہمارے پاس لڑنے کے لئے ایک مقدمه ہے۔ فلسطینی لوگ اس کیس کو لڑتے ہوئے مرنا پسند کریں گے بجائے اس کے کہ اس مقدمه کو ہار جائیں۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اردن کا شاہ غلط ہے۔اور ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ فلسطینی لوگ تب تک لڑتے رہیں گے جب تک انہیں حق نہیں مل جاتا۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم نے دنیا کے سارے انسانوں کو بتادیا ہے کہ ہم ایک چھوٹی سی بہادر قوم ہیں جو انصاف حاصل کرنے کے لئے اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑے گی۔ وہ انصاف جو دنیا ہمیں فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

صحافی: ایسا لگتا ہے کہ یہ خانہ جنگی بے نتیجہ رہی ہے!

غسان کنفانی: یہ خانہ جنگی نہیں! یہ ایک عوام کی اپنے دفاع کے حق میں فاشسٹ حکومت کے خلاف جدوجہد ہے ۔ جس کا آپ دفاع کر رہے ہو، صرف اس لیے کہ شاہ حسین کے پاس ایک عرب پاسپورٹ ہے۔

صحافی: یہ تنازعہ ہے۔

غسان کنفانی: یہ تنازعہ بھی نہیں۔ آزادی کی تحریک ہےجو انصاف کے لئے لڑی جا رہی ہے۔

صحافی: ٹھیک ہے! جو بھی اسے مناسب کہا جاسکتا ہے۔

غسان کنفانی: یہ ’’جو بھی‘‘ بھی نہیں۔ کیونکہ یہیں سے ہی مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی وجہ ہے کہ آپ ان سب سوالوں کو پوچھتے ہیں تب مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ لوگوں کی ان کے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد ہے (ایسے لوگ) جن کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے۔ اگر آپ اسے خانہ جنگی کہتے ہیں تو آپ کے سوالات جائز ہو جا ئیں گے۔ اگر آپ اسے تنازعہ کہتے ہیں تو یقینا یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہو کیا رہا ہے۔

صحافی: آپ کی تنظیم اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں کیوں شامل نہیں ہوتی؟

غسان کنفانی: آپ کا مطلب امن مذاکرات نہیں ہیں! آپ کا مطلب اسرائیلی اطاعت قبول کرنا اور ہتھیار ڈالنا ہے۔

صحافی: صرف بات کیوں نہیں کرتے؟

غسان کنفانی: کس سے بات کریں؟

صحافی: اسرائیلی رہنماؤں سے بات کریں۔

غسان کنفانی: اس طرح کی گفتگو تلوار اور گردن کے مابین گفتگو کی طرح ہوگی۔

صحافی: اگر کمرے میں تلواریں اور بندوقیں نہ ہوں تو آپ تب بھی بات کرسکتے ہیں۔

غسان کنفانی: نہیں ، میں نے کالونیسٹ کیس اور قومی آزادی کی تحریک کے مابین کوئی بات چیت نہیں دیکھی ہے۔

صحافی: لیکن ، اس کے باوجود آپ بات کیوں نہیں کرتے؟

غسان کنفانی: کس کے بارے میں بات کریں؟

صحافی: لڑائی نہ کرنے کے امکان کے بارے میں بات کریں۔

غسان کنفانی: کس کے لئے نہ لڑیں؟

صحافی: کسی بھی چیز کے لئے، چاہے جو مرضی ہوجاۓ۔

غسان کنفانی: نوجوان عام طور پر کسی مقصد کے لئے لڑتے ہیں۔ اور وہ کسی مقصد کے لئے ہی لڑنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا ، آپ مجھے نہیں بتا سکتے کہ ہمیں بولنا بھی کیوں چاہئے۔ اور کس کے بارے میں بات کریں؟

صحافی: لڑائی بند کرنے کے بارے میں بات کریں۔ اموات ، مصائب اور تباہی کو روکنے کے لئے بات کریں۔

غسان کنفانی: کس کی تکلیف ، تباہی اور درد؟

صحافی: اسرائیلیوں کی، فلسطینیوں کی اور عربوں کی۔

غسان کنفانی: بیس سال سے مارے جانے والےفلسطینی لوگ جنہیں نکالا گیا، کیمپوں میں پھینک دیئے گئے ہیں ، فاقہ کشی میں رہ رہے ہیں۔ اور یہاں تک کہ فلسطین کا نام استعمال کرنے سے بھی منع کیا گیا۔

صحافی: اس طرح رہنا مرجانےسے تو بہتر ہے۔

غسان کنفانی: شاید آپ کے لئے بہتر ہو مگر ہمارے لئے نہیں۔ ہمارے لئے اپنے ملک کو آزاد کرانا ، وقار رکھنا ، احترام کرنا ، انسانی حقوق حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ زندگی۔

صحافی: آپ نے بادشاہ حسین کو ایک فاشسٹ کہا۔ عرب رہنماؤں میں سے کون ہے جو آپ کے بالکل مخالف ہیں۔

غسان کنفانی: ہم عرب حکومتوں کو دو طرح کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ 1۔ رجعت پسند ، جو مکمل طور پر سامراجیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے کنگ حسین ، سعودی حکومت ، مراکشی حکومت، تیونسی حکومت ۔ 2۔ اور دوسرے مڈل کلاس فوجی ممالک جیسا کہ شام، مصر، عراق اور الجیریا۔

صحافی: کیا آپ ماضی کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ طیارے ہائی جیک کرنا ایک غلطی تھی؟

غسان کنفانی: طیارے ہائی جیک کرنا ایک غلطی نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو ہمارا سب سے صحیح کام تھا۔

 

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search