فاؤسٹ (حصہ دوم: چھٹا باب)

 In ترجمہ

روڈا کا گرجا خوب بھرا ہوا تھا ۔ ماں اور بیٹے کی ایک ہی رات میں اس درجہ خوفناک موت کا ہر ایک کی زبان پر ذکر تھا ۔ اب یہ سب جمع ہو کر مرنے والوں کی روحوں کے لیے دعا خوانی کر رہے تھے ۔ گرجا کے باہر ایک ستون کی آڑ میں کھڑی دروازے کی جھِری میں سے مارگریٹ  اندر جھانک رہی تھی ۔ وہ اب بھی لڑکی سی معلوم ہوتی تھی ، سیدھی سادی اور نازک لیکن اس کے چہرے پر نوعمری کے آثار اب معدوم تھے ۔ چہرہ دھوئے کپڑے کی طرح سفید پڑا تھا اور اس پر نہ خوشی ظاہر تھی نہ غم ۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ شدتِ غم نے اُس کے خدوخال جامد کر دیے تھے ۔ آنکھیں پھیلی ہوئی اور غمناک تھیں لیکن اُس کے آس پاس جو کچھ ہو رہا تھا اُس کا احساس اُن میں مطلق نہ تھا ۔ نہ تو آنے جانے والوں کو وہ دیکھ رہی تھی اور نہ دعا خوانی کا اثر اُن میں نمایاں تھا ۔

اِس منظر کو وہ جھِری میں سے اس طرح دیکھتی رہی گویا وہ ایک ایسی چیز تھی جو اُس کی حدِ نظر سے پرے تھی ، کوئی چمکدار تصویر تھی جو اُس کی نظروں کے سامنے آ گئی تھی ۔ رنگین لیکن بے معنی ، کوئی پُراسرار تصویر  تھی جس کو سمجھنے کی اُس میں صلاحیت نہیں تھی ۔ اُس نے  لوگوں کو سر جھکائے دیکھا ، حمد گانے والے لڑکوں کو آہستہ آہستہ چکر کھا کر اترتے اور گاتے دیکھا، پادریوں کو دعا خوانی کرتے دیکھا لیکن اُس کی نگاہیں ہمیشہ دو بڑی سی ابھری ہوئی چیزوں کی طرف کھینچ کر جم جاتی تھیں  جو پہلو بہ پہلو رکھی ہوئی تھیں ۔ اُس کو صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ دو ناگوار چیزیں ہیں ، ایسی چیزیں جن سے اُس کی روح بچنا چاہتی تھی اور جن کے متعلق آگے کچھ معلوم کرنے سے اُس کی طبیعت دیوانہ وار اجتناب کرتی تھی ۔ اُن دو مخملی چادروں کے نیچے اُسے معلوم تھا کہ کوئی چیز نہایت خوفناک ہے لیکن یہی کوئی چیز اُسے آواز دے رہی تھی اور اُسے میٹھا میٹھا درد محسوس ہوتا تھا اور بھولی بسری باتیں یاد آتی تھیں ۔

دروازہ ایک دم سے بند ہو گیا اور اندر سے اُسے بڑے پادری کے کچھ کہنے کی آواز اور بہت سے آدمیوں کے جواب دینے اور آمین کہنے کی بھنبھناہٹ سنائی دی ۔

ایک حمد گونجنے لگی اور مارگریٹ کو اُس کے الفاظ یاد آ گئے :-

’’یہ کائنات بھی لرزے گی

جب مردے جاگ کے اٹھیں گے

اور مالک اُن سے پوچھے گا‘‘

بے شک مردے جاگ گئے اور جتنے نیک بندے تھے سب یکجا ہو گئے اور نورِ خداوندی میں نہا گئے ۔ موت بھی کیسی نعمت ہو گی ، آرام سے ہو جاتا ، اور ایک بار پھر اُن محبوب ہستیوں سے ملنا جو بچھڑ گئیں ہیں ! لیکن مارگریٹ کے خیالات پر کیسی دیوانگی چھا گئی ۔ اُس کا تو کوئی عزیز مرا ہی نہیں تھا ۔ وہ تو تنہا تھی ، بالکل تنِ تنہا۔

پھر ایک حمد گرجا میں سے گونجتی ہوئی اُس کے کانوں تک آئی :-

’’جب منصف تخت پر بیٹھے گا

سب عیب عیاں ہو جائیں گے‘‘

عیب! شرمناک بھید! یہ کیا ہوتے ہیں ! مارگریٹ  نے یہ حمد سینکڑوں دفعہ تو گائی ہو گی اور ہمیشہ اُسے ان الفاظ پر اچنبھا ہوتا تھا ۔ شرمناک بھید! کیا جھوٹ بولنا! یا شاید وہ شیریں خیالات جن کی پرورش وہ تنہائی میں کرتی تھی لیکن یقیناٍ ً اُن میں کوئی عیب کی بات نہیں ۔ وہ راز کی باتیں تھیں اور ان میں وہ اپنی پیاری ماں کو بھی شریک نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔

حمد ختم ہو گئی ۔ دعا مانگنے کی بھنبھناہٹ سنائی دی اور پھر سب نے مل کر آمین کہا ۔ قدموں کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا ۔ لوگ سر جھکائے باہر نکلنے لگے ۔ مردوں کی ٹوپیاں ابھی ان کے ہاتھوں ہی میں تھیں اور وہ ایک قطار سی بنائے ہوئے تھے ۔ جنازے اٹھائے گئے اور پادری کے پیچھے پیچھے گرجا کی پُشت کی طرف یہ سب چلے ۔ ان میں سے بعض نے مارگریٹ کی طرف اُچٹتی (سرسری)نظر سے دیکھا اور اُس کے بے اثر چہرے کو دیکھتے گئے ۔ ایک بُڈھے نے اپنے برابر والےسے کہا:- ’’عجیب دنیا ہے ! ذرا سوچو تو سہی کہ بعض عورتیں ایسے بچے جننے کی آرزو میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہیں‘‘۔

اس کا جواب یہ ملا :- ’’جی ہاں ! اور پھر کیسی بھولی بھالی معلوم ہوتی تھی ۔ کیسا دھوکہ دیا ہے اِس نے سب کو ۔ ذرا اس کے چہرے کو تو دیکھو جو ملال کی کوئی شکن بھی اس پر ہو ۔ ماں اور بھائی کو موت کے گھاٹ اتار کر بھی اپنے عاشق کے دھیان میں لگی ہوئی ہے ۔ اس پر تو شیطان ہی عاشق ہوا ہو گا‘‘ ۔

جب جنازے مارگریٹ کے سامنے آئے تو بے اختیاری میں اُس کے ہاتھ اُن کی طرف خود بخود پھیل گئے ۔ یہ لوگ اُن چیزوں کو لے جا رہے تھے جن سے اُسے ڈر لگتا تھا ۔ لیکن ابھی انہیں نہیں جانا چاہیے کیونکہ اِن سے اُسے کچھ کہنا تھا ۔ وہ کیا بات تھی جس کے کہنے کی آرزو اُس کے دل میں اس قدر شدید تھی ؟ یہ ایک پیغام تھا ، آخری پیغام ، اور اس پیغام کے اتنے سارے الفاظ تھے کہ وہ اُس کو یاد نہ رکھ سکی ۔ وہ اُس کے سامنے سے گزر رہے تھے اور آئندہ وہ انہیں کبھی نہ دیکھ سکے گی ۔

چمک کی طرح سے اس کی یادداشت عود کر آئی ۔ بھیانک واقعات کی یاد تازہ ہو گئی  ۔ گزشتہ دو دن کا سوہانِ روح ، اس کی ماں کی اندوہناک موت ، اُس کے پیارے بھائی کا دردناک قتل اور اس کے نیم جان لبوں سے نفرت کا اظہار ، اُس کے عاشق کی فراری ، اُس کے غم کدہ  میں دو نعشوں کے ساتھ تنہائی کی طویل گھڑیاں ، ہمسایوں اور راہ گیروں کی چہ میگوئیاں ۔۔۔

ایک نحیف سی چیخ مار کر وہ جنازوں پر گری لیکن کلیسا کے ایک خادم نے بغیر اُس کی طرف دیکھے ہوئے اسے دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اور وہ اُس ستون سے ٹکرا کے سنبھلی جس کے قریب وہ کھڑی ہوئی تھی ۔ وہاں وہ دبکی کھڑی ہاتھ ملتی رہی ، دیوانوں کی طرح پھٹی آنکھوں سے آہستہ آہستہ گزرتے جنازوں کو دیکھتی رہی اور اس کے لب جلدی جلدی ہل رہے تھے گویا گِڑگِڑا کر التجا کر رہی تھی ۔

آخر میں خالہ مارتھا آ رہی تھی ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔ جب اُس نے مارگریٹ  کو ستون کے پاس دَبکے دیکھا تو اس کا چہرہ سخت ہو گیا اور اُسے اِس طرح گھور کر دیکھا گویا وہ مجرم تھی ۔ لڑکی نے اُسے دیکھا ۔ اب ساری دنیا میں صرف یہی ایک اُس کی رشتہ دار رہ گئی تھی ۔ مارگریٹ اُسے دیکھ کر چیخی اور امداد کے لیے اس کی طرف ہاتھ پھیلا دیے ۔ لیکن خالہ مارتھا کی آنکھیں اُسے بے رحمی سے گھورتی رہیں ۔ ان میں وہ ہمدردی نہیں تھی جو پہلے ہمیشہ ہوا کرتی تھی ۔ بلکہ اب اُن میں غصہ اور حقارت نمایاں تھی ۔ اُس نے چیخ کر کہا :-

’’تو! یہاں آنے کی ہمت! اری رنڈی کیا تیری ساری شرم و حیا غارت ہو گئی ! دیکھ تیرے جسم کی خواہش اور دولت کی لالچ نے تجھے ہدڑے (حال)   کو پہنچا دیا ۔ کتنی  ہی دفعہ منع کیا تھا تجھے‘‘۔

پھر مارگریٹ  کے دیکھتے دیکھتے سب لوگ گرجا کے عقب میں غائب ہو گئے  ۔

اس کی محبوب ہستیوں کے جنازے  روپوش ہوتے ہی اُس کے خیالات پھر اُمڈ آئے اور اُس کا کرب و صعب اور بھی زیادہ شدید ہو گیا ۔ بہت سی باتوں کی یاد اس کے ذہن میں تازہ ہو گئی ۔ خوشی کے قہقہوں کی یاد، اعتبار و اعتماد ، خوشیاں منانا ، بعض غم کی باتوں کی یاد، اور ان سب نے مل کر اُسے اُن سے جکڑ دیا جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے تھے ۔

وہ کانپنے لگی اور گلے سے عجیب طرح کے رونے کی آوازیں نکلنے لگیں ، لیکن اُس کی آنکھیں خشک تھیں کیونکہ وہ اب رو بھی نہیں سکتی تھی ۔

ساتواں باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search