کمپیوٹر اخلاقیات: ڈیبورا جانسن (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ
نوٹ: 2004ء میں بلیک ویل پبلی کیشنز کے زیر اہتمام لوسیانو فلوریڈی (  Luciano Floridi) کی زیرِ ادارت    ’’ بلیک ویل گائیڈ  برائے  فلسفہ کمپیوٹنگ اور انفارمیشن ‘‘   (The   Blackwell   Guide   to   the   Philosophy   of   Computing   and   Information) شائع ہوئی ۔ڈیبورا  جونسن  ، ورجینیا یونیورسٹی کے سکول برائے انجیئنرنگ  کے تحت سائنس، ٹیکنالوجی اور سوسائٹی پروگرام سے وابستہ پروفیسر ہیں جنھوں نے بلیک ویل گائیڈ میں کمپیوٹر اخلاقیات کے موضوع پر مضمون لکھا ۔ کمپیوٹر سائنس ، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا ازم کے پس منظر میں مذکورہ مضمون کی اہمیت کے پیش ِ نظر اس مضمون کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق کمپیوٹر اخلاقیات کے موضوع پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔

 تعارف

اپنی ایجادکے وقت  ہی سے کمپیوٹرز نے پیچیدہ سماجی ، اخلاقی  اور اقداری تحفظات کو جنم دیا ہے ۔1970ء میں شائع ہونے والی   اسحاق آسموف(Isaac   Asimov) کی سائنس فکشن پر مبنی کہانیوں سے لیکر  مینول کاسٹل (Manuel   Castells)کےسماجی نظریہ کی بابت   تین جلدوں پر ضخیم   رسائل (جو بالترتیب 1996، 1997، اور 1998ء میں شائع ہوئے)اور ان کے درمیانی عرصہ میں ہونے والے کام میں   ان تحفظات کو  متفرق انداز سے بیان کیا گیا ہے  ۔ ادب  عموماً کمپیوٹر کے سماجی اثرات  کو بیان کرتا ہے ، تاریخ ِ انسانی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی  اور کمپیوٹر کے استعمال کی معنویت پر غور کرتا ہے  اور  مستقبل میں کمپیوٹر کی مدد سے ہونے والی ایجادات  اور ان سے منسلک  سماجی اداروں  کی   ترقی    کے ممکنہ راستے کی پیش گوئی کرتا ہے ۔ فلسفیوں کی ایک مختصر لیکن بڑھتی ہوئی تعداد نے   خاص طور پر اخلاقی  مسائل      پر توجہ دی ہے ۔

جوں جوں کمپیوٹر   ٹیکنالوجی   ترقی کرتی ہے اور نت نئے انداز سے بروئے کار آتی ہے  تو حق ِ رازداری   (privacy)،   حق ِ ملکیت (  property rights)، احتساب (accountability) اور سماجی اقدار  سےوابستہ  مخصوص مسائل  وجود میں آتے  ہیں ۔ اسی اثناء میں بظاہر جدید  اور منفردمعاملات سامنے آتے ہیں  ۔   اخلاقی معاملات  کو کم از کم تین مختلف انداز سے   ترتیب دیا جا سکتا ہے : نوعِ  ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ، ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے شعبوں  کے اعتبار سے اور  اخلاقی تصورات یا رجحانات کے اعتبار سے ۔  میں  زیرِ نظر باب میں تیسرے طریقے  کو اختیار کروں گا۔ تاہم ، ایسا کرنے سے پہلے بقیہ دونوں طریقوں کومختصراً  بیان  کرنا مفید ہو گا ۔

پہلا طریقہ  ٹیکنالوجی کی قسم اور اس کے استعمال کے اعتبار سے اخلاقی معاملات  کو مرتب کرنا ہے ۔ جب  پہلے پہل کمپیوٹر ایجاد ہوئے  تھے تو   ان کو بنیادی طور پر  تیز رفتار ی سے اعداد و شمار سرانجام دینے والی مشینیں سمجھا گیا تھا ۔  تاہم یہ دکھائی دیتا تھا کہ و ہ انسانی خاصہ تصور کیے جانے والی  صلاحیت کی حامل تھیں  یعنی اعلیٰ درجے کی عقلی صلاحیت کو بروئے کار لا کر دکھانا  ؛ چنانچہ  تشویش لاحق ہوئی  کہ کمپیوٹر ز نے  ان  تصورات کو خطرہ سے دوچار کر دیا جو انسانیت کا خاصہ ہیں  ۔  دوسری جنگ عظیم کے ساتھ ہی (اہل علم کی) سوچ بچار  نے یہ صورت اختیار کر لی کہ  حکومتیں  طاقت کے حصول اورمرکزیت کی خاطر کمپیوٹر کو (کس طور سے) استعمال کرتی ہیں۔ان معاملات کے شانہ بہ شانہ  کمپیوٹر اوربڑے پیمانے پر  ڈیٹا بیس (database)  کے استعمال میں  دن دگنی رات چوگنی  پیش رفت   ہوئی تاکہ شخصی  معلومات کی بہت بڑی مقدار کی پیدائش ، حفاظت  اور اذنِ  ترامیم کے ساتھ دستاویزات کو (لمبے عرصے تک) محفوظ رکھا جائے ۔ اس کے پیچھے پیچھے  سافٹ ویئر کنٹرول سسٹمز (سافٹ ویئر پر مبنی  وحدانی نظام برائے نگرانی) اور ویڈیو گیمز   کے تصورات بھی چلے آئے جنھوں نے  احتساب و ذمہ داری  اور حقِ ملکیت  جیسے  معاملات  کو اٹھایا ۔  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے اس ارتقاء  کی کھوج    حالیہ ترقیوں تک لگائی جا سکتی ہے جن میں انٹرنیٹ ، بناوٹی سوانگ   /سیمولیشن (simulation) وتصویر سازی  سے متعلقہ ٹیکنالوجیز  اور مجازی حقیقت  پر مبنی سسٹمز (وحدانی  نظام)  شامل ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک   بڑھوتری  اپنے ہمراہ تصوراتی/ذہنی   اور اخلاقی بے یقینیت   بھی  لائی۔(یعنی)   انسانی حیات اور قدروں  کی نسبت سے فلاں یا فلاں ترقی    سے  کیا مراد ہو گا؟   یہ    حکومت اور شہری ، آجر و مزدور، کاروبار اور صارفین کے مابین تعلق پر کیا اثر ڈالے گی ؟

دوسرا واضح طریقہ کار یہ   ہے کہ مسائل کی تنظیم اسی   شعبے کے حساب سے کی جائے جس  میں وہ پیش آتے ہیں ۔  اخلاقی مسائل حقیقی دنیا کےسیاق و سباق (پس منظر) میں پیدا ہوتے ہیں اور کمپیوٹر سے وابستہ اخلاقی معاملات   ا ن سیاق و سباق  میں جنم لیتے ہیں جن   میں کمپیوٹر ز استعمال ہوتے ہیں ۔ ہرسیاق و سباق  یا  شعبہ  امتیازی   مسائل و جہات  کا حامل ہوتا ہے   اور اس  پس منظر  سے صرفِ نظر کی صورت میں ، ہم   کمپیوٹر سے وابستہ اخلاقی  مسائل  کی اہم جہات  کو کھو  سکتے ہیں ۔  مثال کے طور پر  رازداری یا اخفائے معلومات کے ضمن میں بالعموم ، اس بات کا امکان ہے  ہم طبی دستاویزات (ریکارڈ)   کی خاطر رازداری  کی   خاص اہمیت  کو نگاہوں سے اوجھل کر بیٹھیں  جب کہ طبیب و مریض کے رشتہ میں رازداری    بنیادی حیثیت کی حامل ہے ۔ بعینہ  عین ممکن ہے کہ  تعلیم کے مخصوص مقاصد سے بارے میں عدم حساسیت کی بنا پر ایک   شخص  تعلیم میں کمپیوٹرکے موزوں کردار   کوکلی طور پر  نہ سمجھ پائے ۔

محولہ بالا  دونوں ہی  طریقے  یعنی خاص ٹیکنالوجیز   کی اقسام و ان کے استعمالات  نیز شعبہ وار    مسائل کا جائزہ لینا ، ا  ہم اور واضح ہیں  ؛  تاہم  وہ ہمیں فلسفیانہ مسائل  سے بہت دور لے جاتے ہیں ۔ زیرِ نظر باب میں  زیرِ بحث آنے والا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ     ٹیکنالوجی کی اقسام  اور شعبوں پر محیط مستقل اخلاقی تصورات اور رجحانات  کو واضح کیا جائے  ۔چنانچہ   مسائل کو فلسفیانہ اور اخلاقی مواد کے اعتبار سے  ترتیب دی گئی ہے ۔مصنف ،  زیرِ نظر باب   میں مسائل کو دو وسیع انواع میں تقسیم  کرتا  ہے : اول ، ماقبل  نظری(meta-theoretical) اور   منہاجی (methodological)مسائل    ۔ دوم ، روایتی اور نئے ابھرتے ہوئے مسائل  ۔

فصل اول  :  ماقبل نظری اور منہاجی معاملات

          غالباً کمپیوٹر سے متعلقہ  اخلاقی مسائل  پر عمیق فلسفیانہ تفکر،  خود اس شعبے  پر تفکر کے ضمن میں ہوا ہے یعنی اس کے داخلی موضوع  ، دوسرے  شعبوں سے تعلقات اور اس کی منہاجیات پر غوروخوض  کے باب میں  ۔ 1985ء میں لکھے جانے والے ایک غیرمعمولی مقالے  بعنوان ’’کمپیوٹر کی اخلاقیات کیا ہے ؟‘‘  میں جیمز مور(  James Moore)  نے تسلیم کیا کہ جب کسی ماحول میں  پہلے پہل  کمپیوٹرز متعارف کروائے جاتے ہیں  تو وہ  انسانوں (افراد، اداروں) کے لیے ان کاموں کو ممکن بنا  دیتے ہیں جو وہ اس  سے قبل انجام نہیں دے سکتے تھے ۔   اور  یہی شے حکمت عملی  (پالیسی /لائحہ عمل )    کے خلا   (policy vacuum)  کو جنم دیتی ہے ۔ ہم قوانین  و ضوابط اور حکمت عملیوں   کے حامل نہیں ہیں    کہ ان نئے امکانات کے تحت کیسے رویے اختیار کئے جائیں ۔ کیا آجروں کو   کمپیوٹر سافٹ ویئرز کے ذریعے  ممکنہ حد تک ملازمین کی نگرانی کرنی چاہیے ؟ کیا  اطباء  کو دور بیٹھے عمل جراحی سرانجام دینا چاہیے ؟ کیا مجھے(یعنی کسی شخص کو)  ملکیتی سافٹ ویئر (proprietary   software)کی نقول بنانی چاہیے ؟  کیا انٹرنیٹ پر موجود    ایک مجازی  چوپال/ چیٹ روم  (chatroom)  میں  ایک جعلی  شناخت اختیار کر لینے   میں کوئی نقصان ہے ؟  کیا انٹر نیٹ  پر کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو  اپنے کھاتوں کی بدولت پیدا ہونے والی معلومات کو بیچنے کی اجازت ہونی چاہیے؟  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی بدولت جنم لینے والے  خلائے حکمت عملی/ پالیسی کے فقدان  کے ضمن  میں یہ چند مثالیں ہیں ۔

کمپیوٹر اخلاقیات کے ضمن میں جیمز مور کی وضاحت نے کمپیوٹر کے تحت شعبہ  اخلاقیات کی صورت گری یوں کی ہے کہ  اس شعبے کے بیشتر ماہرین  خلائے حکمت عملی کو بھرنے کی خاطر مدد فراہم کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں ۔ بلاشبہ ، کمپیوٹر اخلاقیات کے ضمن میں دلچسپی کے امور میں سے ایک یہ ہے کہ خلائے حکمت عملی کو عبور کرنےکی خاطر ہونے والی اس سرگرمی کی تفہیم کی جائے ۔ اس  کو، بعد ازاں ،  زیرِ بحث لایا جائے گا ۔

جزو اول : ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کے مابین ربط

کمپیوٹر کی اخلاقیات کے بارے میں جیمز مور کا بیانیہ اپنی مقبولیت کے باوجود  بہت سے سوالات کو  تشنۂ جواب  چھوڑ  دیتا ہے  ۔ لہذا  اس سوال کے ضمن میں بحث مباحثہ   جاری رہتا ہے کہ کمپیوٹر  اخلاقیات کا شعبہ ہی کیوں    ہے  یا کیونکر ہونا چاہیے  نیز اس شعبہ کا مقصود کیا ہونا چاہیے۔

1999ء کے ایک عمیق تجزیے میں فلوریڈی (Floridi)   کمپیوٹراخلاقیات  کی  ایک مابعد الطبیعیاتی  بنیاد کے حق میں دلیل پیش  کرتا ہے ۔ وہ کمپیوٹر اخلاقیات  کا ایک بیانیہ پیش کرتا ہے جس میں معلومات کو ایسا مقام حاصل ہے کہ  خود معلومات کو  برباد کرنا ہی اخلاقی اعتبار سے غلط  ہو سکتا ہے ۔ دورانِ تحقیق (بذات خود) ڈیبورا جانسن   کمپیوٹر اخلاقیات کی بنیاد  ،ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کے مابین مخفی  رابطہ پر   استوارکرنے کا جتن کر چکی ہے (جونسن ، 2001)۔  ٹیکنالوجی اور اخلاقیات  کے مابین تعلق (relevance) کیونکر ہے ؟  انسانی فعل و معاملات ، اخلاقی تصورات یا نظریات  میں ٹیکنالوجی کی بدولت  کیا تبدیلی  رونما  سکتی ہے ؟

ان  سب سوالوں کے  جواب  دو مرحلوں پر مشتمل ہیں ۔ پہلے مرحلے میں   اس شے کو  بتمام و کمال  تسلیم کرنا ہے جس  کا اعتراف جیمز مور کا بیانیہ کرتا ہے یعنی ٹیکنالوجی اکثر اوقات  انسانوں کے لیے وہ کام    ممکن بنا دیتی ہے جواس  کے بغیر انجام نہیں دیے جا  سکتے تھے ۔  انسانوں کو چاند تک لے جانے والے خلائی جہاز کا تصور کیجئے  ، تصویر ساز (imaging) ٹیکنالوجی کو تصور میں لائیے  جو ہمیں  جسم کے اندرونی اعضاء کی  تصویر دیکھنے کے قابل بناتی ہے  یا  انٹرنیٹ پر تباہی برپا کر دینے والے کمپیوٹر  وائرس کے بارے سوچئے ۔

بلاشبہ صرف اتنا ہی  نہیں ہے کہ آج  انسان اس فعل کو سرانجام دے  سکتے ہیں جووہ اس سے قبل نہیں کر سکتے تھے ۔ ایسا بھی ہے کہ ہم ماضی میں سرزد ہونے والے افعال  کودوبارہ سے سرانجام دے سکتے ہیں  لیکن نت نئے طریقوں سے ۔ ٹیکنالوجی کے نتیجے میں ہم  نت نئے طریقوں سے سفر اور کام کر سکتے ہیں ، دستاویزات(ریکارڈ)کو    محفوظ کر سکتے ہیں نیز  تفریحات سے لطف اندوز ہو  سکتے ہیں ،(پلک جھپکنے میں )  رابطہ  قائم کر سکتے ہیں  اور نت نئے جنگی  حربوں کو استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ جب ہم  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہو تے ہیں  تو ہمارے افعال    جداگانہ اوصاف  کے حامل ہوتے ہیں  ، ایسے  اوصاف جوشاید   کسی  فعل یا نوع ِ فعل  کے چلن کو تبدیل کر دیں ۔ متفرق ٹیکنالوجیز کی بدولت  تحریر نویسی کی مثال کو  فرض کر لیجیے ۔ جب میں کاغذ اور قلم سے لکھتا ہوں تو قلم  کاغذ پر چلتا  ہے ؛  جب میں ٹائپ رائٹر کواستعمال کرتا ہوں تو لیور اور گیئرحرکت میں آتےہیں؛ جب میں کمپیوٹر کے ذریعے لکھتا ہوں تو برقی روئیں (  electronic impulses)  مائیکروچپ   کی اندرونی تشکیلات  (configurations)  میں تبدیلی پیدا کر دیتی  ہیں  ۔ لہذا  جب میں کمپیوٹر  ٹیکنالوجی کو  تحریر نویسی کے لیے استعمال کرتا ہوں تو نہایت ہی  مختلف  طبیعی حوادث   رونما ہوتے ہیں ۔

(عمرانیات کے ) نظریہ فعل(action   theory)  کے تحت  اس تبدیلی کو    کسی مثالی فعل  (act-type) کے تحت ممکنہ علامات ِ فعل (act   tokens)  میں ایک تبدیلی کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے ۔   ایک مثالی فعل  ایک نوع ِ فعل ہے (مثال کے طور پر  کتب بینی ، چہل قدمی )  اور   ایک علامت ِ فعل  کسی مثالی فعل کے تحت ہونے والا ایک مخصوص واقعہ (instance) ہے ۔ ایک علامت ِ فعل   کسی مثالی فعل کے تحت  ایک خاص فرد کے  ذریعے ایک خاص وقت اور ایک خاص مقام پر ہونے والا     ایک واقعہ ہے ۔ مثال کے طور پر ، ’’ اس وقت ورجینیا یونیورسٹی  کے تھارٹن ہال (  Thornton Hall) کے کمرہ نمبر 20 میں  جان اور جم شطرنج کھیل رہے ہیں‘‘ ،   ایک مثالی فعل ’’ شطرنج کھیلنا ‘‘  کے تحت ایک علامت ِ فعل ہے ۔   ایک مثالی فعل کی کارگزاری میں ٹیکنالوجی  کے شامل ہونے کی بدولت ہو سکتا ہے کہ  علامات ِ فعل    کے ایک نئے مجموعے کا امکان  سامنے آ جائے۔مثال کے طور پر ، اب کسی دوسرے شخص کے بغیر    کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر  ’’ شطرنج کھیلنا ‘‘     ممکن ہے ۔ سہ جہتی مہروں  کو ہاتھ سے حرکت دینے کی بجائے   بندہ ، کمپیوٹر کی اکھر پھٹی  (keyboard)    پر موجود    بٹنوں کو دباتا ہے یا مشینی موش (mouse) کا  بٹن دباتا ہے ۔ چنانچہ جب انسان کمپیوٹر کے ساتھ افعال سرانجام دیتے ہیں  تو علاماتِ فعل  کے نئے مجموعے دائرہ امکان میں   وجود پا تے ہیں ۔اہم ترین نکتہ ہے کہ   نئی علامات ِ فعل ، اسی مثالی فعل کے تحت دیگر  علامات ِ فعل سے  ہٹ کر  خوبیوں کی حامل ہیں ۔ 

کمپیوٹر ٹیکنالوجی  انسانی افعال  میں یوں آلہ کار بنتی ہے کہ نہایت ہی  سادہ  کاروائیاں  بیحد  طاقتور  افعال میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ کمپیوٹر کی اکھر پھٹی (کی بورڈ )  پر ہاتھ کی نہایت معمولی سی حرکت کو لے لیجئے ۔ جب اکھر پھٹی (کی بورڈ) کمپیوٹر اور کمپیوٹر،  انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہوتا ہے  نیز جب ہاتھ کی معمولی سی  حرکت   ایک کمپیوٹر وائرس کو جنم دیکر حرکت میں لانے کا آغازکر تی  ہے   تو  ہاتھوں کی مدد سے ہونے والی ایسی  ہی معمولی کاروائیاں ہزاروں بلکہ  لاکھوں افراد کی زندگیوں کو تہہ و بالا کر  سکتی ہیں ۔ ٹیکنالوجی  کی بدولت ایک ایسافعل وجود میں آیا  ہے جو اس کے بغیر ناممکن تھا  ۔  یقیناً ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے پہلے بھی افراد دوسروں کی زندگیوں کو تہہ و بالا کر سکتے تھے تاہم اس طور  اور غالباً اتنی آسانی کے ساتھ نہیں ۔ اس اعتبار سے کمپیوٹر  اور دوسری ٹیکنالوجیز کے مابین   چنداں فرق نہیں ہے؛ دوسری ٹیکنالوجیز نے سادہ جسمانی حرکات کو طاقتور افعال میں تبدیل کر دیا ہے جیسا کہ بارود سے دھماکہ خیزی (ڈائنامائیٹ)اورموٹرگاڑیوں میں ۔

ٹیکنالوجی اور انسانی افعال کے مابین گہرے تعلق  کی شناخت    ہی  ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے افعال   کے باب میں  انسانی  ذمہ داری   سے انحراف  کی روک تھام کے لیے   اہمیت کا حامل ہے خاص طور پر  جب کوئی نامناسب واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔   تاہم ، ہیکر( یا کمپیوٹر  سارق ) اس بنیاد پر ایک وائرس کو پھیلانے کی ذمہ داری سے جان   نہیں چھڑا  سکتا  کہ اس نے اپنے گھر میں بیٹھے  ہوئے  محض اپنی انگلیوں کو حرکت دی تھی ۔  انسانی پیش قدمی کے  بغیر ٹیکنالوجی کچھ نہیں کر تی ہے؛  اگرچہ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ  بعض اوقات انسان   پہلے سے  اس بات کو نہیں بھانپ سکتا کہ  وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا کر رہا ہے  ۔

چنانچہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کے مابین تعلق کی تفہیم   کے سلسلے میں پہلا قدم  اس بات کو جاننا ہے کہ  کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انسانی افعال کے مابین  کس قدر گہرا تعلق  ہو سکتا ہے ۔دوسرا قدم انسانی افعال کو اخلاقیات کے ساتھ جوڑنا ہے ۔  شاید   یہ قدم    اس قدر قابل ذکر دکھائی نہ دے کیونکہ بیشتر اوقات اخلاقیات کو  بلاشرکت غیرے انسانی افعال کا دائرہ سمجھا جاتا ہے ۔  اگر ایسا  ہے،  تو  بھی   کمپیوٹر ٹیکنالوجی انسانی افعال کے دائرے کو بدل  کر  رکھ دیتی ہے   لہذا    اس بارے میں سوال اٹھانا   قابل تحسین ہے کہ آیا  ایسی تبدیلیوں کی کوئی  اخلاقی اہمیت  ہے ؟    کیا ایک انسانی صورت حال میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی  کے شامل ہونے  کی کوئی اخلاقی معنویت  ہے ؟  کیا انسانی افعال کا میکانکیت میں ڈھل جانا    اخلاقی مسائل   کی نوعیت ، نظریہ اخلاق کی ماہیت یا اخلاقی فیصلہ سازی  پر اثرانداز ہوتا ہے ؟

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی شمولیت کئی وجوہات کی بنا پر اخلاقی اہمیت کی حامل ہے ۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ، ٹیکنالوجی انسانی افعال کے لیے نئے امکانات کو جنم دیتی ہے اور اس  کا مطلب یہ ہوا  کہ انسانوں کو ایسے اخلاقی سوالات  کا   سامنا  ہے جو اس سے پہلے ان کو  کبھی درپیش نہ  تھے ۔    کیا  ہمیں حیاتیاتی ہتھیاروں کو بنانا چاہیے اور ایک  حیاتیاتی جنگ کا خطرہ مول لینا چاہیے ؟ کیا  جسمانی پیوندکاری (transplantation) کے لیے  مجھے اپنے اعضاء دینے چاہییں ؟  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ضمن  میں  (اگر دیکھا جائے تو)، کیا  کمپیوٹر وں کو استعمال کرنے والے مزدوروں کی نگرانی کرنا غلط ہے کہ انہوں نے کمپیوٹر کی اکھر پھٹی (کی بورڈ) پر کون سے بٹن دبائے ؟ کیا   کمپیوٹروں  میں ( ویب گاہوں کی بابت) ایک خاص نوع کی معلومات  یعنی   کوکیز (cookies)  کو   چھوڑنا    غلط ہے جب  وہ ایک ویب گاہ ( ویب سائٹ )کو کھولتے ہیں  ؟ کیا کسی فرد کی متفرق ذاتی معلومات کو ایک جامع سانچے (portfolio)  کے تحت یکجا کر نا غلط ہے ؟

جب ٹیکنالوجی ایک مثالی فعل   کے اوصافِ فعل  کو تبدیل کر دیتی ہے تو  اس مثالی فعل کی اخلاقی خوبی  تبدیل ہو سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ،عموماً اس بات کو آجروں کے لیے اخلاقی اعتبارسے قابل قبول  سمجھا جاتا ہے کہ  وہ اپنے ملازمین  کے کام کی نگرانی  کریں  ۔  ایسے سافٹ دیئر کی تخلیق  جو آجر کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ اس بات کا ریکارڈ محفوظ  رکھے  نیز  اس بات کا تجزیہ بھی کرے  کہ اس کے لیے کام کرنے والے نے   کمپیوٹر  کی اکھر پھٹی (کی بورڈ)    پر کون سے اکھروں (حروف) کو استعمال کیا  ہے ، نئے طور سےایک  سوال کو جنم دیتی ہے ۔   آجر و مز دور کے حقوق  کو اس نئے امکان کی روشنی میں ازسرنو دیکھنا پڑے گا ۔  یا  ایک دوسری قسم کی  مثال لے لیجئے کہ   جب سافٹ ویئر  کے ملکیتی حقوق کی بات ہوتی ہے  تو کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ضمن میں  تصور ِ  مال ، ملکیتی حصہ داری   اور(سافٹ ویئر کی )  نقول تیار کرنا  واضح طور پر  مختلف اشیاء ہیں کیونکہ کمپیوٹر سافٹ ویئر دوسری تمام چیزوں  کے مقابلے میں  جدا  گانہ خوبیوں کا حامل ہے ۔ سب سے زیادہ قابل ِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ ملکیت اور افادیت کے اعتبار سے مالک کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے بغیر   سافٹ ویئر کی نقول تیا ر کی جا سکتی ہیں (اگرچہ مارکیٹ میں اس سافٹ ویئر کی قدروقیمت میں نقصان  یقینی ہے ) ۔

چنانچہ  کمپیوٹر اور اخلاقیات اس حد تک منسلک ہیں  کہ کمپیوٹر انسانوں کے لیے ان کاموں کو سرانجام دیناسہل کر  دیتا ہے  جو اس سے پہلے ادا نہیں ہو سکتے تھے  نیز  ماضی کے افعال  کو   نت نئے طریقوں سے ادا کرنےکو ممکن بنا دیتا ہے ۔     ایسی تبدیلیاں  اکثر و بیشتر اخلاقی معنویت کی حامل  ہیں۔

فصل دوم:  عملی اور ترکیبی   اخلاقیات

یہ کہنا کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی  ایک مثالی فعل کے تحت  نئی علاماتِ فعل کو تخلیق کرتی ہے ، شاید  بعض  لوگوں کے نزدیک  کمپیوٹر اخلاقیات کو اطلاقی یا عملی اخلاقیات کی ایک شاخ قرار دے ۔ ایک دفعہ کمپیوٹر سے متعلق   ایک اخلاقی  معاملے میں(پہلے سے )  مانوس مثالی افعال کا دخل مان لیا جائے،  تو اس امر کو فرض کر لینا عین ممکن ہے کہ اب اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے بس اتنا ہی کرنا ہو گا کہ ان اخلاقی قوانین و نظریات کو استعمال کر لیا جائے جو عام طور پر اس مثالی فعل پہ لاگو ہوتے ہیں ۔ ۔ مثال کے طور پر ، اگر  ایک صورت حال کے تحت  معلومات کی ترسیل میں ایمان داری  درکار ہو  ، تو   تمام تر شرائط اور خدشات کے ساتھ  فقط اس  اصول ’’ سچ بولو‘‘   کی پیروی   کیجیے   ۔ یا  پھراگر ایک  صورت ِ حال  کے   مثبت اور منفی نتائج    برآمد  ہوتے ہیں توفقط  مادی منفعت  کو ترجیح دیجئے۔تاہم  کمپیوٹر اخلاقیات کا  یہ  بیان   ’’عملی اخلاقیات ‘‘   کے عمومی تصور کی مانند   متنازع ہے ۔

ایک شے ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اس سے منسلک انسانی صورت احوال   ہمہ وقت  عسیر الفہم نہیں ہوتے   ۔ جیسا کہ جیمز مور  نے 1985ء میں  نشان دہی کر دی   ہے کہ بیشتر اوقات ذہنی/تصوراتی    الجھاؤ    درپیش ہوتے ہیں ۔ سافٹ  ویئر کیا ہے ؟ کمپیوٹر وائرس کیا ہے ؟ ہم سرچ انجن ، کوکیز  اور مجازی حقیقت  کے اندر    نقصان (  virtual harm)کو کیسے تصور میں لاتے ہیں  ؟ بالفاظ دیگر ، کمپیوٹر اخلاقیات کے ماہرین اصولوں اور نظریات کے ’’اطلاق‘‘ سے زیادہ کام کرتے  ہیں   ؛ وہ عقلی /تصوراتی  تجزیہ سرانجام دیتے  ہیں ۔ مزید براں ، بیشتر اوقات  کمپیوٹر اخلاقی معاملات   کا تجزیہ   ترکیب و تالیف (synthesis)  پر مشتمل ہوتا ہے  ،ایسی ترکیب و  تالیف جو ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ اخلاقی صورت حال دونوں کی تفہیم  کو جنم دیتی ہے ۔  اس کی عمدہ مثال  مجازی   حقیقت  کے تحت  آبروریزی (  virtual rape)  سے متعلقہ ہے(ڈیبل ، 1993)  ۔ اس  مثال میں مجازی حقیقت  کے تحت    ایک سے زائد ارکان  (multi-user)  پر مبنی  کھیل  کا ایک کردار    دوسرے کردار کی عزت لوٹ لیتا ہے ۔ کھیل میں حصہ لینے والے  غم و غصہ  کا شکار ہو جاتے ہیں اور مجازی کرداروں سے کام لینے والے حقیقی  شخص کے رویے  کو  ناگوار اور برا جانتے ہیں ۔  کمپیوٹر پر مبنی  اخلاقی مسئلہ  اس امر کی نشاندہی  پر مشتمل ہوتا  ہے کہ اگر(کوئی غلطی سرزد)  ہوئی ہے تو  مجازی حقیقت میں کردار سے کام لینے والے حقیقی شخص سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے ۔ یہ  (سوال ) اس امر  کی تفہیم  پر مشتمل ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے ، حقیقی شخص  سے کیا فعل  سرزد ہوا نیز اس بات کی نشاندہی ہو  کہ افعال کی درجہ بندی کیسے کی جائے   اور پھر اس بات کی تجویز دی  جائے کہ اس حرکت کو کیسے دیکھنا  چاہیے نیز  اس حوالے سے ردعمل  کیسے دینا چاہیے۔مکرر عرض ہے کہ     اس قسم کا تجزیہ  ضابطوں  اور نظریات کے  محض ’’اطلاق ‘‘   سے بڑھ کر ہوتا ہے   ۔ یہ عقلی(تصوراتی)   تجزیے و تعبیر پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلاشبہ ، ترکیبی و تالیفی تجزیہ  ایسے مضمرات  کا حامل ہو سکتا   ہے   جو معروف اخلاقی ضابطوں اور نظریات  کے معانی  یا  ان سے متعلق ہماری تفہیم   کی بابت  غوروفکر سے کام لیتے ہوں  ۔

یقیناً، کمپیوٹر  اخلاقیات سے وابستہ فلسفیانہ تحقیق  اکثر وبیشتر  معروف فلسفیوں  کی تحقیقات  سے استفادہ  کرنے ،  ان کو وسعت بخشنے اورمعروف اخلاقی تصورات ، ضابطوں اور نظریات کے اطلاقات پر مشتمل ہوتی  ہے ۔ مثال کے طور پر ، کمپیوٹر کے اخلاقی مسائل  کو اکثر و بیشتر  افادیت پرستانہ ، اخلاقی فریضہ  (deontological) ، اور نظریہ برائے سماجی معاہدہ (  social contract   theory)   جیسے نظریوں کے تناظر میں زیرِ بحث لایا  گیا ہے ۔ انٹرنیٹ کے بارے میں لکھنے والے بیشتر محققین  نے  وجودی مفکرین سورن کیرکے گارڈ   (Soren   Kierkegaard) (ڈریفس ، 1999؛ پروسر اور وارڈ ، 2000)اور جبریل مارسل(  Gabriel Marcel) کے علمی کاموں سے اخذ  کیا ہے (اینڈرسن ، 2000)۔ جارگن ہیبرماس  (Jürgen   Habermas)کے علمی کام نے  ان لوگوں کو بے حد متاثر کیا ہے جو کمپیوٹر مواصلات   کے حوالے سے کام کر رہے ہیں  (ایس ، 1996)۔ زمانۂ قریب میں 1999ء میں  ، وان ڈین ہوون (Van den Hoven)  نے انفارمیشن سوسائٹی کے تجزیہ کی غرض سے  مائیکل والزر (  Michael Walzer) کی  کتاب ’’انصاف کے دائروں ‘‘   (Spheres of   Justice) کو استعمال  کیا ہے ۔ کوہن (Cohen)نے 2000ء  اور انٹرونا  (Introna)نے  2001 ء میں  انٹرنیٹ   پر مبنی مواصلات کی تفہیم کے لیے عمانویل لیویناس (  Emmanual Levinas)  کو استعمال کیا ہے ۔ ایڈمز اور افوری امانفو (  Adams   and Ofori-Amanfo) نے 2000ء میں   تانیثی اخلاقیات  اور کمپیوٹر اخلاقیات کو باہم جوڑ ا ہے   اور 1999ء میں گروزنسکی (Grodzinsky) نے کمپیوٹر اخلاقیات  پر روشنی ڈالنے کی غرض سے   نظریہ ِ قدر (  virtue theory) کو آگے بڑھایا ہے۔

تاہم   اگرچہ   کمپیوٹر کے ماہرین ِ اخلاقیات،  اخلاقی تصورات و نظریات کو  اخذ کرتے ہیں ، ان کو وسعت  دیتے ہیں نیز   ان کا ’’اطلاق ‘‘ کرتے ہیں ، کمپیوٹر اخلاقیات اس سے کہیں زیادہ بڑے حصے پر مشتمل ہوتی ہے ۔حال  ہی میں سن   2000ء  کے اندر   بریے (Brey) نے ’’انکشافی کمپیوٹر  اخلاقیات ‘‘ (  disclosive computer   ethics)نامی طریقہ کار  کے حق میں  نکات اٹھائے ہیں ۔   وہ لکھتا ہے کہ اطلاقی اخلاقیات پر مبنی  ڈھانچہ  (applied   ethics   model) متنازع  معاملات پر زور دیتا ہے جن کا اخلاقی حصہ  واضح  ہے ۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ ایسے بے شمار غیر شفاف  مسائل  موجود ہیں  جن کی شناخت آسان نہیں ہے ۔ان اقدار کو   ’’آشکار ‘‘  اور(عملی جامہ پہناتے ہوئے)  مرئی بنانے کے لیے  لازماً تجزیہ کرنا چاہیے ، جو  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ڈیزائن اور استعمال  میں ناگزیر حصہ رکھتی ہیں ۔  اس حوالے سے2000ء میں سرچ انجن  سے متعلق  انٹرونا اور نسان بام (  Introna and   Nissenbaum)کی تحقیق ایک نمایاں تحقیق ہے ۔ وہ اس امر کو (کھول کر ) دکھاتے ہیں کہ کیسے سرچ انجن  کا خاکہ  اقداری  انتخاب/اختیارات سے مالا مال ہے ۔  ان اقداری انتخابات  / اختیارات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی غرض سے  لازم ہے کہ سرچ انجن میں بروئے کار آنے والی  اقدار کو ظاہر اور  منکشف کیا جائے ۔ شاید  یہ  امر بہت سادہ  محسوس ہوتا ہو   مگر درحقیقت  ٹیکنالوجی  میں صرف ہونے والی  اقدار کو ظاہر کرنے کا عمل اس تفہیم پر منحصر ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے نیز   کیسے انسانی رویے اور انسانی اقدار کو متاثر کرتی ہے ۔

اس سوال سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ کمپیوٹر اخلاقیات  کا بہترین بیان  کیا ہے ، اس بات کو واضح ہونا چاہیے کہ مذکورہ شعبہ کا غالب رجحا ن یہ ہے کہ اس کے دائرہ کار ، اس کے  منہاج  ، اس کی وجۂ تخلیق اور اخلاقی تفتیش کے دیگر  حصوں کے ساتھ اس کے روابط کو سمجھا جائے ۔  جوں جوں کمپیوٹر ٹیکنالوجی  ترقی پاتی ہے اور نت نئے انداز سے بروئے کار آتی ہے  ، پہلے سے کہیں زیادہ اخلاقی معاملات کے جنم لینے کے امکانات ہیں ۔

فصل سوم: روایتی اور جدید مسائل

’’انفارمیشن سوسائٹی ‘‘  ایک اصطلاح ہے جس کو خاص طور پر معاشی اور سماجی ماہرین  ان معاشروں کے خاص وصف کو بیان کرنے کی غرض سے استعمال کرتے ہیں    جن میں انسانی   کارگزاری  اور  سماجی ادارے ،  کمپیوٹراور  انفارمیشن ٹیکنالوجی  کے ہاتھوں  نمایاں طور سے منقلب ہوئے  ہیں  ۔ اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے  ، کمپیوٹر اخلاقیات  کو وہ شعبہ تصور کیا جا سکتا ہے جو ’’ایک انفارمیشن سوسائٹی‘‘  سے  وابستہ مخصوص اخلاقی مسائل  کی چھان پھٹک کرتا ہے ۔ یہاں میں(مصنفہ) ان مسائل  کے ایک ذیلی مجموعہ پر توجہ مرکوز کرو ں گی  جن کا تعلق پیشہ وارانہ اخلاقیات ، اخفائےمعلومات ،کمپیوٹر جرائم ( سائبر کرائم)  ، مجازی حقیقت اور انٹرنیٹ کے عام خصائص سے ہے ۔

جزو اول : ماہرین کمپیوٹر /کمپیوٹر پروفیشنلز  کے لیے اخلاقیات

ایک انفارمیشن سوسائٹی میں بے شمار افراد کو تعلیم کے بعد ا ُن  شعبوں میں ملازمتیں  دی جاتی ہیں  جو  کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بڑھوتری ، دیکھ بھال، خریدوفروخت نیز  کمپیوٹر و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ بلاشبہ ، ایک انفارمیشن سوسائٹی ایسے افراد پر انحصار کرتی ہے  یعنی  اس کا دارومدار ان کے مخصوص علم  و مہارت اور اپنے اپنے شعبے  سے متعلقہ سماجی ذمہ داریوں کو نبھانے  پر  ہوتا ہے ۔ کمپیوٹر میں مہارت کو احتیاط  یا لاپرواہی  کے ساتھ اچھائی اور برائی دونوں کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے نیز انفارمیشن ٹیکنالوجی  کے ماہرین کی پیشوں یا شعبوں   میں تنظیم  ان  مہارتوں کو انسانی فلاح  میں مصروف رکھنے کا  ایک سماجی ذریعہ ہے  ۔

   کمپیوٹر کے ماہرین کی سماجی ذمہ داریوں کی تفہیم اور ان کے جواز  کے ساتھ ایک اہم فلسفیانہ مسئلہ وابستہ   ہے ۔  اس بات کی جانکاری رکھتے ہوئے کہ ماہرین کمپیوٹر  کی سماجی ذمہ داریوں کا جواز  فرض اور ذمہ داری  کے ایک  نسبتاً زیادہ عمومی تصور کے ساتھ وابستہ  ہے  ، کمپیوٹر    اخلاقیات کے ماہرین   نے روایتی فلسفیانہ تصورات اور نظریات بالخصوص  نظریہ برائے سماجی معاہدہ (social   contract   theory) سے استفادہ کیا ہے ۔

پیش نظر رکھیے کہ    ماہر کمپیوٹر بننے اور انسانیت کی بہتری کے لیے  اس مہارت کو کام میں لانے کا فریضہ سرانجام دینے کے مابین  تعلق  کو     یونہی ایک ریاضیاتی  تعلق کی صورت میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔  ایک جانب  کوئی ’’کیوں ‘‘  کا سوال کر سکتا ہے  ؟کمپیوٹر کے ایک ماہر  کو اپنے کردار کے ساتھ منسلک سماجی ذمہ داریوں کو کیونکر اٹھانا چاہیے ؟   دوسری جانب ، پیشہ وارانہ امور سرانجام دینے والے افراد  عام طور پر آزاد اخلاقی اشخاص کی حیثیت سے کام نہیں کر رہے ہیں  بلکہ وہ اداروں اور تنظیموں کے ملازمین کی حیثیت سے  کام کرتے ہیں  اور شاید  کسی منصوبے کے اہم ترین نتائج کو متعین کرنے والے فیصلوں میں شامل نہ  ہوتے ہوں ۔ لہذا، اس نکتے کو بیان کرنے میں ایک نظری مسئلہ ہے کہ کیونکر اور کس حد تک   پیشہ وارانہ ذمہ داریاں  نبھانے والے افراد اپنی کارگزاریوں کے نتائج  کے ذمہ دار ہیں ؟

نظریہ برائے  سماجی  معاہدہ  (Social   Contract   Theory)پیشہ وارانہ فرائض  اور سماجی  ذمہ داریوں کے مابین تعلق  کے حوالے سے ایک بیانیہ  فراہم کرتا ہے ۔ پیشہ ور جماعت کے ارکان  اوران کے سماجوں  یا  معاشروں     کے مابین ایک سماجی معاہدہ وجود رکھتا ہے ۔ معاشرہ (ریاستیں ، صوبے ، گروہوں ) پیشہ ور جماعتوں کو  اجازت دیتا ہے کہ وہ  پیشہ وار انہ /پروفیشنل تنظیمیں بنائیں   ،  اپنے ارکان کی تربیت اور تنظیم میں داخلے کے انتظام و انصرام  کے لیے تعلیمی اداروں کا استعمال کریں ، وغیرہ وغیرہ ۔ تاہم اس سب کی اجازت اس ذمہ داری کے بدلے دی جاتی ہے کہ  پیشہ ور جماعت   کی تنظیم اور انصرا م   کی ذمہ داری اس طور سے کی   جائے جو معاشرے کے لیے مفید ہوں ۔ بالفاظ ِ دیگر ، ایک پیشہ اور اس سے متعلقہ افراد   مخصوص سماجی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے بدلے  میں خاص سہولیات حاصل کرتے ہیں۔

 ان ذمہ داریوں کا نمایاں حصہ  کمپیوٹر اخلاقیات کےماہرین کی توجہ کا ایک مرکزی موضوع رہا ہے ۔  کمپیوٹر کے پیشہ ور/پروفیشنل   گروہوں  یا تنظیموں   نے پیشہ وارانہ اور اخلاقی طرز عمل کے ضابطوں کو پروان چڑھایا اور نافذ کیا ہے جو وسیع تناظر میں  ماہرین کمپیوٹر کےواسطے حدود و قیود کا خاکہ کھینچتے ہیں  کہ ان کے لیے کیا  شے ضروری ہے اور کون سی شے ضروری نہیں ہے ۔  مثال کے طور پر تنظیم  برائے کمپیوٹنگ مشینری (  Association for   Computing   Machinery)  کے ضابطہ اخلاق   اور پیشہ وارانہ امور   یا    برطانوی کمپیوٹر سوسائٹی کے ضا بطہ اخلاق  کو دیکھیے ۔  چونکہ یہ ضابطے بے حد عمومی نوعیت کے ہیں  لہذا  ان کے  موزوں کردار اور کارگزاری کے بارے میں بہت سی بحثیں ہوتی رہی ہیں ۔ کیا ان کو قوانین کےمتوازی  سمجھنا چاہیے ؟ کیا ان کو نافذ کرنے  کے  طریقہ ہائے کار ہونے  چاہییں   نیز ان کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے ؟ یا پھر کیا ضابطہ اخلاق کو ترغیب دینے کا ذریعہ ہونا چاہیے ؟  اگر ایسا ہے تو  ان کو محض آدرشوں  کے بیان پر مشتمل ہونا چاہیے   اور ’’ظاہر کی بجائے‘‘   محض ان کی روح پر عمل کرنا چاہیے ۔

کمپیوٹر اخلاقیات کا، کم از کم  ایک ، ماہر تو  یہ دلیل دیتا ہے کہ  کمپیوٹر اخلاقیات  کے شعبہ کا مرکزی کام شعبہ     کمپیوٹر کے تحت  کام کرنے والوں کی خاطر پیشہ وارانہ اخلاقی  معاملات  کا تعین کرنا ہے  ۔ گوٹر بان (Gotterbarn)لکھتا ہے کہ ’’کمپیوٹر اخلاقیات کو قابل فہم بنانے کا  واحد راستہ یہ ہے کہ اس کے دائرہ کار کو ان افعال تک محدود کر دیا جائے جو کمپیوٹر سے کام لینے والے کسی اخلاقی فرد/پروفیشنل  کے دائرہ اختیار  میں آتے ہیں ‘‘  (گوٹربان ، 1995: ص 25)۔

اگرچہ گوٹربان کا نقطہ نظر اشتعال انگیز ہے،  اس کا  کلی طور سے  درست ہونا واضح نہیں ہے ۔  ایک جانب ،  کمپیوٹر اخلاقیات کے بنیادی مسائل میں سے بیشتر  جیسا کہ  حقوق برائے رازداری   اور  ملکیت  ، سماجی اقدار اورحکمت عملی  سے متعلقہ  ہیں ۔ یہ صرف ماہرین کمپیوٹر تک محدود رہنے کی بجائے  تمام شہریوں سے وابستہ مسائل   ہیں  ۔ مزید براں ، شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ افراد کو درپیش بیشتر بنیادی مسائل   صرف کمپیوٹر کے شعبے سے مخصوص نہیں ہیں؛   بلکہ وہ دیگر پیشہ وارانہ گروہوں کو درپیش مسائل   سے مماثل  ہیں  یعنی اپنے گاہکوں (موکلوں)اور آجروں سے متعلق ہماری کیا ذمہ داریاں  ہیں ؟ ہم کب کب  اپنی معلومات کو افشاء کرنے کا جواز رکھتے ہیں ؟ ہم   کیسے بہترین انداز سے عوام کو خدشات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ علاوہ ازیں ، چونکہ شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ کثیر افراد نجی  صنعتوں میں کام کرتے ہیں تو ان کو درپیش بیشتر مسائل   عام  کاروباری اخلاقیات سے متعلقہ ہیں ۔ ان کو خریدوفروخت ، اشتہارات ، مملوکہ مواد (proprietary data)،  مسابقتی رجحانات وغیرہ وغیرہ سے واسطہ پڑتا ہے ۔ لہٰذا ، یہ تصور غلطی پر مبنی ہو گا کہ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑے ہوئے تمام تر اخلاقی  مسائل  محض شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ افراد سے متعلقہ اخلاقی مسائل  ہیں ۔ ماہرین کمپیوٹر   بے شمار پیچیدہ اور منفرد مسائل  کا سامنا کرتے ہیں  تاہم وہ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گرداگرد گھومنے والے اخلاقی مسائل کے محض ایک ذیلی مجموعہ  پر مشتمل ہیں ۔

جزو دوم: رازداری/اخفاء  (Privacy)

ایک ’’انفارمیشن  سوسائٹی‘‘   میں   رازداری    /اخفاء ایک اہم معاملہ ہے کہ جمع ہونے والی  اور تعامل سے گزرنے والی  زیادہ تر   معلومات    افراد سے متعلقہ  ہے ۔ ماضی میں   مواد کے وسیع و عریض پھیلاؤ  کو یکجا کرنے ، محفوظ کرنے  اور حافظہ سے دہرانے کو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی  اس امر کو ممکن بنا دیتی ہے ۔  بلاشبہ ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے معلومات  کے اکٹھا کرنے کو  بیشتر افعال کا   خلقی (Built-In) وصف بنا دیا ہے ،  مثال کے طور پر  کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے ، فون کال ملاتے ہوئے ، اور انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے  معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں ۔  ایسی معلومات کو اکثر اوقات لین دین کی بدولت وجود میں آنے والی معلومات(  transaction   generated information) کہا جاتا ہے ۔

کمپیوٹر اخلاقیات کے ماہرین  رازداری/اخفاء    کے ضمن میں  عموما  پہلے سے موجود   فلسفیانہ اور قانونی  تجزیہ سے  نکات اخذ کرتے ہیں اور دو بنیادی  سوالات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں : رازداری/اخفاء   کیا ہے ؟ یہ کیونکر اہم ہے ؟ یہ سوال متنازع فیہ چلے آ رہے ہیں  اور رازداری و اخفاء   تو مشکل میں ڈال دینے والا ایک تصور دکھائی دیتا ہے ۔ بعضوں کے نزدیک رازداری و اخفاء   کے تصور کی دوسرے تصورا ت  جیسے کہ ملکیت یا آزادی   میں تخفیف    کی جا سکتی ہے؛  بعض  کہتے ہیں کہ  رازداری و اخفاء   فی نفسہ ہی کوئی ایسی  شےہے  جو  داخلی اعتبار سے  قابل ِ قدر   ہے ؛   تاہم  دیگر  اشخاص  کے بقول ،  داخلی اعتبار سےارزاں ہونے کے باوجود    رازداری   کا موضوع ، قیمتی سمجھی جانے والی دیگر اشیاء (و تصورات )جیسا کہ دوستی ، یگانگت اور جمہوریت وغیرہ کی تفہیم  کے ضمن میں وسیلہ  بننے کا حامل ہے  ۔

کمپیوٹر اخلاقیات کےماہرین  نے رازداری  و اخفاء کے موضوع کو   ،  بہت زیادہ ذاتی معلومات کو جمع کرنے نیزاس  معلومات کے تبادلے کے نتیجے  میں ہونے والے سماجی اثرات کے باب میں  دیگر نسبتاً زیادہ مقبول مسائل  کے متوازی اٹھایا ہے ۔ خدشہ ہے کہ  ایک ’’انفارمیشن سوسائٹی ‘‘    بڑی آسانی سے ایک ’’نگران  معاشرہ‘‘ (  surveillance society) بن  سکتی ہے ۔ یہاں کمپیوٹر اخلاقیات کے ماہرین  بینتھم (Bentham)اور فوکو  (Foucault) کے کام سے استفادہ کر چکے ہیں جن کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ افراد کے بارے میں اکٹھا ہونے والا تمام تر مواد بیک وقت سب کچھ دیکھنے اور دکھانے  والی  ایک ایسی دنیا کو جنم دے جس میں عملی اعتبار سے ہم شبانہ روز زندگی  گزارتے ہیں (ریمان، 1995)۔ ’’بیک وقت سب کچھ دیکھنے اور دکھانے والی‘‘ (panopticon) دنیا ، ایک ایسا  زنداں   خانہ ہے جس کا نقشہ  جیریمی بینتھم (  Jeremy Bentham)  نے قیدیوں کے لیے بنایا تھا۔  ایسے زنداں میں قید خانوں کو ایک دائرے میں یوں ترتیب دیا جاتا ہے  کہ ہر خانے کی اندرونی دیوار شیشے سے بنی ہوتی ہے  تاکہ دائرے کے مرکز میں  واقع برج  کے اندر  موجود  نگران   ہرایک خانے میں ہونے والی ہر شے کو دیکھ سکتا ہے یہ دو طرفہ عمل  نہیں ہے ؛  یعنی قیدی برج میں بیٹھے ہوئے  نگران  کو نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ درحقیقت ، قیدخانے کے  نگران  کا اس زنداں میں موجود  ہونا بھی ضروری نہیں ہے  ؛ بلکہ یہ کافی ہے کہ قیدیوں کو   اپنی  نگرانی کا یقین ہے ۔   جب افراد اس امر کا  یقین کر لیتے ہیں کہ ان کی نگرانی ہو رہی ہے تو وہ اس حساب سے اپنے رویوں کو ڈھال لیتے ہیں ؛  وہ اس بات کوملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں کہ نگرانی کرنے والا ان کے رویوں کا ادراک کرے گا ۔ یہ شے فرد کے رویہ  پر اثر چھوڑتی  ہے نیز اس امر کو متاثر کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کیسے دیکھتے ہیں ۔

اگرچہ کمپیوٹر کی مدد سے معلومات  کو اکٹھا کرنے کا عمل  مادی اعتبار سے ایک زنداںکو جنم نہیں دیتا ہے ، لیکن  یہ اس حد  تک مشابہ ہے کہ  انفرادی رویہ کے بیشتر حصہ کو نگرانی کے لیے مہیا کر دیتا ہے ۔ پس، ایک انفارمیشن سوسائٹی میں   اعداد وشمار اکٹھا کرنے والے افعال  اسی زنداں جیسے اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں ۔ ان کے بیشتر افعال  پر نظر رکھی جا سکتی ہے ، اس امر سے آگاہی لوگوں  کے رویوں  کو متاثر کر سکتی ہے۔ جب انسانی رویہ کی نگرانی ہوتی ہے ، اس کے ریکارڈ کو  محفوظ رکھا جاتا ہے نیز اس کاپیچھا کیا جاتا ہے  تو  ایسی صورت میں افراد   منفی نتائج کے خوف سے معیارات  کے عادی  بن سکتے ہیں  ۔ ایک خاص حد تک پہنچنے پر  تو  شاید  یہی فعل  لوگوں  کو آزادانہ سرگرمی اور تنقیدی سوچ کے قابل(بھی )  نہ رہنے دے  ، اور یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو نفاذِ جمہوریت کے لیے ضروری ہیں  ۔  اس تناظر میں  کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے گرد گھومنے والے رازداری و اخفاء  کےمسائل    ، آزادی اور جمہوریت (جیسے تصورات) کے عین قلب  تک مار کرتے ہیں ۔

شاید   یہ دلیل دی جائے  کہ    انفارمیشن سوسائٹی میں (بینتھم کے ) زنداں کے اثرات  رونما نہیں ہوں گے  کیونکہ معلومات کو اکٹھا کرنےکا عمل  مخفی ہے لہذا   افراد اپنی نگرانی سے ناواقف ہیں ۔ یہ ایک امکان ہے  ،تاہم  ایسا بھی  ہو سکتا  ہے کہ جیسے جیسے عوام الناس میں انفارمیشن سوسائٹی  کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا ہو جاتی ہے ، وہ اس بات سے واقف ہو جائیں گے کہ ان کو کس حد تک نگرانی کا سامنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس بات کو دیکھ پائیں کہ مختلف مقامات پر جمع ہونے والی معلومات کو باہم جوڑ دیا جاتا ہےاور پھرسرکاری اداروں ، کاروباری اور بیمہ کار تنظیموں ، تعلیمی اداروں اور آجروں وغیرہ کے ساتھ ان کے تعامل پر اثرا نداز ہو نے والے فیصلوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

رازداری  و اخفاء سے متعلقہ خدشات  کو  ذاتی معلومات کو جمع  کرنے ، ان کی محافظت   اورحدبندی کے حوالے سے قانونی امور کے ضمن میں  پالیسی (حکمت عملی)  کے تحت  بھی اٹھایا گیا ہے   ۔اس حوالے سے قابل توجہ  بات  یہ  ہے کہ مختلف ممالک کے مابین پالیسی کے حوالے سے  تقابلی تجزیوں پر توجہ دی گئی ہے  کیونکہ اس حوالے سے بہت زیادہ تفاوت ہے ۔ امریکہ میں  ٹکڑوں میں بانٹ کر دیکھنے  کا طریقہ کار اپناتے ہوئے متفرق  دستاویزات (جیسے کہ صحت ، نوکری اور مالی معلومات پر مبنی دستاویز ات  وغیرہ  )    کی خاطر جداگانہ  قانونی طریقہ کار رائج رہا ہے۔    جبکہ   بےشمار یورپی ممالک کے ہاں جامع حکمت عملیاں (پالیسیاں ) موجود ہیں جو اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ تمام تر شعبوں میں کس قسم کی معلومات کون سی شرائط کے تحت اکٹھی کی جا سکتی ہے ۔حکمت عملی (  پالیسی) سے متعلقہ معاصر مباحث  پر عالمی کاروبار کے تیز رفتار پھیلاؤ  کی بدولت زور ڈالا جاتا ہے ۔ معلومات اکٹھی کرنے والی تنظیمیں  معلومات فراہم کرنے والے افراد سے عہد کرتی ہیں کہ ان کی فراہم کردہ معلومات کو مخصوص انداز ہی میں استعمال کیا جائے گا  تاہم ایک عالمی معیشت میں کسی ایک ملک میں  رازداری کی مخصوص شرائط کے ساتھ اکٹھا ہونے والا  مواد ، کسی دوسرے ملک میں منتقل ہو سکتا ہے جہاں  مختلف شرائط لاگو ہوتی ہیں یا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔  معلومات جمع کرنے والی ایک تنظیم   شاید  معلومات کو ایک مخصوص انداز میں استعمال کرنے کا عہدوپیمان کرے اور پھر معلومات فراہم کرنے والے سے بدعہدی کرتے ہوئے اس معلومات کو بیرون ملک روانہ کر دے  جہاں اس کو یکسر مختلف انداز میں بروئے کار لایا جائے گا ۔ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروانے کے لیے آج کل عالمی سطح پر معاہدوں کے حوالے سے کاوشیں ہو رہی ہیں تاکہ کسی ایک ملک میں  جمع ہونے والی معلومات کی قومی سرحدوں سے باہر منتقلی کی روک تھام کرنے  کا بندوبست ہو پائے ۔

جزو سوم: سائبر کرائم  اور  استحصال

 گزشتہ سطور میں  کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت  لاحق ہونے والے  خطرات  کے علاوہ ، رازداری  و اخفاء کو استحصال کی بدولت بھی خطرات دوچار ہوتے ہیں ۔ جوں جوں افراد اور تنظیمیں زیادہ سے زیادہ برقیات (electronically)(یاپھر  ڈیجیٹل  کمپیوٹر )  پر منتقل ہوتی جاتی ہیں، ان کے حقوق برائے رازداری و اخفاء اور ملکیت پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں  نیز انہی حقوق کو  بعض اوقات افراد سے خطرات  لاحق ہو جاتے ہیں جو قانون توڑتے ہیں یا حدودِ قوانین کو آزماتے  ہیں ۔ ممکن ہے کہ ایسے افراد شاید ذاتی مفا د کو تلاش کرتے ہوں  یا  اس بات کو بوجھنے کی چنوتی(چیلنج)  سے لطف اندوز ہوتے ہوں  کہ حفاظتی  طریقہ کار کو کیسے توڑا جا ئے۔ ایسے افراد کو ہیکرز(کمپیوٹر  سارق ) یا کریکرز (بلااجازت رسائی حاصل کرنے والا  کمپیوٹر  نقب زن   ) کہا جاتا ہے ۔ ہیکر سے وہ افراد مراد ہوتے ہیں جو کمپیوٹر پروگرام کے حوالے سے کام کرنے اور کمپیوٹرز کے ذریعے پیچیدہ امور کو سرانجام دینے کی چنوتی لینے کو مرغوب جانتے ہیں  تاہم لازمی طور پر قانون شکنی نہیں کرتے ہیں ۔ کریکر  ز وہ لوگ ہیں جو قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تاہم آج کل   ان دونوں اصطلاحوں کو مترادف سمجھ کر  ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو مجرمانہ افعال کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

ہیکرز اور کریکرز کی ثقافت صرف ان کی سرگرمیوں سے لاحق ہونے والے خطرات کے کارن  ہی دلچسپی کی حامل نہیں ہے بلکہ اس لیے بھی     دلچسپ ہے کہ  وہ ثقافت ا  س حوالے سے  ایک نعم البدل  پیش کرتی ہے  کہ   کیسے کمپیوٹر ٹیکنالوجی  پیدا ہوئی تھی  نیز اس کا استعمال  کس طور سے ہواتھا۔ اسی شے نے فلسفیوں  میں تجسس کو ابھارا ہے ۔  ہیکرز اور کریکرز  اکثر اوقات اپنے رویوں کا دفاع  ، معلومات کے آزادانہ بہاؤ کےہمراہ  کمپیوٹر سے کام لینے بہت  زیادہ وسیع و عریض  نظام  اور  ایک  ایسے ماحول کی تخلیق کے ذریعے کرتے ہیں    جس میں افراد بخوشی اپنے تصورات اور (کمپیوٹر) آلات کا تبادلہ کر سکتے ہیں  ۔ خاص طور پر  (کمپیوٹر و انٹرنیٹ) ثقافت  تجویز دیتی  ہے کہ سافٹ ویئر کی ملکیت کو ختم کرنے کی پالیسی  شاید  کمپیوٹر کے بہتر استعمال کی جانب لے جائے ۔ ملکیت  کی بنیاد خاص طور پر علمی  ملکیت کے بارے میں روایتی مباحث اٹھاتے ہوئے یہ مسئلہ ،   ملکیت سے متعلقہ فلسفیانہ نظریات کے قلب تک جاتا ہے ۔

بعض لوگ جان لاک کے نظریہ برائے مزدوری (labor   theory) سے استفادہ کرتے ہیں اوراستدلال کرتے ہیں کہ سافٹ ویئر بنانے والے  اپنے اپنے  سافٹ ویئر کے استعمال کو قابو میں رکھنے کا فطری حق رکھتے ہیں  ۔ فاضل مصنف کی مانند دیگر افراد کا استدلال ہے  کہ اگرچہ سافٹ ویئر کے ضمن میں ملکیت تفویض کرنے کی خاطر افادی وجوہات موجود ہیں ، فطری حقوق پر مبنی دلائل  سافٹ ویئر کی ذاتی ملکیت کو جواز نہیں بخشتے ہیں ۔ خلقی اعتبار سے ایک ایسی دنیا میں رہنا  کچھ ناجائز نہیں ہے جس میں فرد کسی شے کا مالک نہیں  ہے نیز  اپنے ہی بنائے ہوئے سافٹ ویئر کے استعمال  کی نگرانی نہیں کر سکتا  ۔

بلاشبہ ، آج کل بیشتر صنعتی ممالک میں   سافٹ ویئر کی نقول تیار کرنے اور انھیں تقسیم کرنے کے  خلاف قوانین موجود ہیں  ،  اور کمپیوٹر اخلاقیات کے ماہرین نے ان قوانین کی خلاف ورزی سے متعلقہ مسائل  پرموضوع بحث بنایا ہے ۔عقلی اعتبار سے بعض نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آیا  چوری اور ہراسانی (harassment) جیسے معروف جرائم اور کمپیوٹر کی مدد سے ہونے والی انہی جرائم کے مابین کوئی فرق ہے ؟ کیا  ایک کمپیوٹر پروگرام   کی چوری (نقل کرنے اور ان نقول کو بیچنے )  اور   گاڑی چرانے میں اخلاقی اعتبار سے کوئی نمایاں فرق ہے ؟  کیا انٹرنیٹ کے ذریعے ہراسانی  اور آمنے سامنے    ایک دوسرے کو دی جانے والی تکلیف میں اخلاقی اعتبار سے کوئی فرق ہے ؟  یہ سوال  جنم لیتا ہے کیونکہ  انٹرنیٹ پر ہونے والے تعاملات اور افعال  کچھ امتیازی خوبیوں کے حامل ہیں ۔ انٹرنیٹ پر افراد  ایک مخصوص بے نامی (anonymity) کے سایے تلے کام کر سکتے ہیں ۔ وہ کمپیوٹر کے وسیلے سے خود کو پوشیدہ رکھ سکتےہیں ۔ یہ  امر کمپیوٹر کے نظام میں معلومات کی افزائش نو   کے ساتھ باہم مل کر مجرمانہ رویہ  کی غرض سے  ایک مخصوص ماحول کو جنم دیتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر چوری (cybertheft)  کے حوالے سے ایک واضح فرق یہ ہے کہ چور مالک کو اس کی ملکیت کو استعمال کرنے سے محروم نہیں کرتا ہے ۔ مالک کو  ہنوز سافٹ ویئر تک رسائی   حاصل ہے  اگرچہ بے شمار نقول کی موجودگی کے سبب مارکیٹ میں سافٹ ویئر کی قدر و قیمت ختم ہو جاتی ہے  ۔

کمپیوٹر اخلاقیات کے ماہرین نے سائبر کرائم کو سمجھنے اور عقلی گرفت میں لانے کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم کی سنگینی   اوراس کی  مناسب سزا کے بارے میں سوچنے کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے ۔ مجرمانہ رویہ کوئی نئی شے نہیں ہے تاہم انفارمیشن سوسائٹی میں جرم کی نئی  انواع کو ممکن بنادیا گیا ہے نیز مجرموں کو پکڑنے  کے لیے ضروری اقدامات اور جرائم کی روک تھام میں فرق ہے ۔

جزو چہارم : انٹرنیٹ کے مسائل

بیسیویں صدی کے اخیر  میں (کمپیوٹر)  ٹیکنالوجی پر مبنی  سب سے زیادہ طاقت ور پیش رفت شاید انٹرنیٹ ہی ہے ۔ انٹرنیٹ بیشتر صنعتوں کو ایک دوسرے کے پاس لے آتا ہے خاص طور پر کمپیوٹر ، ٹیلی کمیونیکشن  اور میڈیا  کے شعبوں کو ۔ یہ  ان کو باہم جوڑدیتا ہے اورلاکھوں افراد کے لیے  ایک بیٹھک/فورم (Forum) مہیا کرتا ہے نیز  دنیا بھر کو کاروباری مواقع فراہم کرتا ہے ۔ چنانچہ اس میں ذرا  بھی تعجب نہیں ہے کہ زمانہ ِ حال میں انٹرنیٹ  ، کمپیوٹر اخلاقیات کی توجہ کا نمایاں مرکز ہے ۔ انٹرنیٹ کی  بُنت میں کاغذ  اور سیاہی سے لیکر  برقی  ذرائع تک  بہت سے بنیادی سماجی اداروں کا ہاتھ شامل ہے  ۔ ماہرین اخلاقیات کے سامنے سوال یہ ہے : کیا انٹرنیٹ کی بابت اخلاقی اعتبار سے کوئی امتیازی شے  موجود ہے ؟ (بعینہ ایسا ہی سوال گزشتہ  سطور  میں سائبر کرائم کے بارے میں پوچھا گیا تھا )۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انٹرنیٹ تین اوصاف کا حامل ہے جو اس کو غیرمعمولی یا خاص بناتے ہیں ۔ اول،یہ غیرمعمولی گنجائش (scope) کا حامل ہے کہ یہ عالمی سطح پر کثیر الجہتی  رابطہ (  many-to-many communication)کی سہولت مہیا کرتا ہے ۔ یقیناً ، ٹی وی ، ریڈیو اور ٹیلی فون عالمگیر حیثیت کے حامل ہیں تاہم ریڈیو اور ٹی وی بنیادی طور پر ایک سے لیکر کثیر لوگوں /آلات(واحد تا کثرت) (one-to-many)کے مابین  رابطہ کی ایک صورت ہے اور ٹیلی فون جو کثیر لوگوں اور آلات (کثرت تا کثرت)  ( many-to-many) کے مابین رابطہ  کی ایک صورت ہے ، مہنگی نیز اس کا استعمال دشوار ہے ۔ انٹرنیٹ کے ساتھ ، افراد اور تنظیمیں  نسبتاً کم قیمت پرحقیقی وقت  (real   time)  کے اندر  ایک دوسرے کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ مرتبہ  باآسانی رابطہ کر سکتی ہیں   نیز تصویر اور آواز کو بھی استعمال کر سکتی ہیں ۔ دوم، انٹرنیٹ ایک مخصوص قسم کی  گمنامی و بے نامی    کی سہولت مہیا کرتا ہے ۔ کوئی بھی فرضی یا حقیقی شناخت کے ساتھ  کم قیمت پر نہایت آسانی سے دنیا بھر کے افراد سے وسیع پیمانے پر رابطہ کر سکتا ہے  تاہم کسی نے ایک دوسرے کو آمنے سامنے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس قسم کی گمنامی و بے نامی     انٹرنیٹ پر ہونے والے رابطہ کی ماہیت اور مواد کو متاثر کرتی ہے ۔ انٹرنیٹ کی تیسری خاص خوبی اس کی افزائش نو  سے متعلق ہے۔ انٹرنیٹ پر جب کوئی شے ڈال دی جاتی ہے یعنی متن ، سافٹ ویئر ، موسیقی اور ویڈیو  تو اس کی نامختتم نقول بن سکتی ہیں ۔  ان کو باآسانی تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ مزید براں ، ذرائع کی افزائش نو سے مراد ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی تمام تر سرگرمی  محفوظ ہوتی  ہے اور اس کی کھوج لگائی جا سکتی ہے ۔

انٹرنیٹ کےخصائص  یعنی عالمی سطح پر کثیر افراد  و آلات کا کثیر افراد  وآلات (کثرت تا  کثرت)  سے  رابطہ ، گمنامی و بے نامی  اور افزائش ِ نو ، تینوں ہی بے شمار مثبت اور منفی امکانات کے حامل ہیں ۔ عالمی سطح پر کثیر افراد  و آلات کا کثیر افراد  وآلات (کثرت تا  کثرت)  سے  رابطے کی گنجائش،  جغرافیائی فاصلوں کی اہمیت کو کچھ نہ سمجھتے  ہوئے دنیا بھر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے ۔ یہ خوبی خاص طور پر ان لوگوں کو  آزادی دے دیتی ہے جن کے لیے جسمانی اعتبار سے سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے  یا بیحد مہنگا ہے ۔ اسی اثناء میں ،  یہ ممکنہ فوائد اپنے ساتھ نقائص بھی لاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نقص یہ ہے کہ یہ قوت ان لوگوں کے ہاتھ بھی لگتی ہے جو اس کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں گے ۔ دنیا میں کسی بھی جگہ بیٹھ کر اور بے حد تھوڑی مشقت اٹھاتے ہوئے،  لوگ کمپیوٹر وائرس کو بھیج سکتے ہیں اور دوسروں کے مابین رابطے کو درہم برہم کر سکتے ہیں ۔ وہ خود کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر کہیں زیادہ  بڑے پیمانے پر دوسروں کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔

بعینہٖ ، گمنامی   و بے نامی فائدے اور نقصانات دونوں  کی حامل ہے ۔ انٹرنیٹ پر مہیا ہونے والی گمنامی و بے نامی   کی قسم ، مادی و طبیعی  وجود کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کا سدباب  کرتے ہوئے چند افراد کو آزاد ی عطا کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر ، ایسے پس منظر میں جہاں  نسل اور جنس کی تمیز کے کارن   شاید جائز سلوک روا نہ رکھا جا ئے ، انٹرنیٹ کی فراہم کردہ  گمنامی و بے نامی    جانبداری کو ختم کر سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ، انٹرنیٹ کے ذریعےدی جانے والی/ آن لائن    تعلیم  (online   education) میں شاگردوں کے مابین نیز استاد  کے ہاتھوں شاگردوں کی جانچ پڑتال  کو متاثر کرنے والے عوامل جیسا کہ  نسل ، جنس اور جسمانی قدوقامت  ختم ہو جاتے ہیں ۔عین ممکن ہے کہ گمنامی و بے نامی مفید سرگرمیوں میں بھی سہولت پہنچائے جیسا کہ آبروریزی   کی شکار عورتوں اور  مارپیٹ    کی  شکار بیویوں  یا سابقہ بیویوں  یا سزا یافتہ مجرموں کے درمیان ہونے والے مباحث میں فائدہ ہو جائے  ، جہاں شخصیت کو چھپا ئے بغیر افراد شاید ہی کوئی حصہ لیں ۔

تاہم  ، گمنامی   و بے نامی سے  احتساب  اور معلومات کی سالمیت کے سنجیدہ مسائل  پیدا ہوتے ہیں  ۔ گمنامی  و بے نامی کے سائے میں کام کرنے والے مجرموں کو گرفتار کرنا دشوار ہے ۔ نیز  گمنامی و بے نامی    برقی معلومات کی سالمیت کے نقص میں حصہ ڈالتی ہے ۔ اس کی بہترین مثال غالباً انٹرنیٹ کی چوپالوں  ( chat-rooms) کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات  ہے ۔ اگرچہ ناممکن تو  نہیں  لیکن  دشوار  ضرور ہے کہ بات چیت کرنے والوں کی شناخت سے  بندے کو یقینی آگاہی ہو جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہی شخص بے شمار شناختوں کے تحت معلومات میں حصہ ڈال رہا ہو؛  شاید بے شمار لوگ ایک ہی شناخت کو استعمال کر رہے ہوں ؛ شاید زیربحث  معلومات میں حصہ لینے والوں کی کوئی غرض پوشیدہ ہو (ہو سکتا ہے کہ زیرِ بحث شے یا کمپنی میں کام کرنے والا ہی معلومات میں حصہ ڈالنے والا ہو )۔ جب کوئی معلومات کے حقیقی ماخذ کو متعین نہیں کر سکتا  یا ایک ماخذ کے ساتھ تجربات کا ایک سلسلہ پیدا کر لیتا ہے  تو  ایسے میں معلومات کے قابل اعتبار ہونے کا تعین کرنا (قریب قریب  ) ناممکن ہے ۔

عالمگیر وسعت و گنجائش  اور گمنامی و بے نامی   کی مانند ،افزائش ِ نو کا وصف  بھی فوائد اور نقصانات کاحامل ہے ۔ افزائش ِ نو کا وصف معلومات  اور رابطے تک رسائی  مہیا کرتا ہے ؛  یہ الفاظ اور دستاویزات کو تقریباً لامتناہی   ویب گاہوں  (sites) تک آگے بھیجنے اور انٹرنیٹ  پر موجود لامتناہی ویب گاہوں  سے اپنے  کمپیوٹر میں محفوظ کر لینے  (download)کی اجازت دیتا ہے ۔ یہ سائبر ورلڈ کے مجرموں کی کھوج لگانے میں  بھی مدد دیتا ہے ۔ تاہم اسی اثنا ء میں افزائش ِنو کا وصف،  رازداری و اخفاء اور حقوقِ ملکیت کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے ۔ یہ احتساب اور گمنامی و بے نامی   کی بدولت  معلومات کی سالمیت کے مسائل میں اضافہ کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر ، جب میں ایک جماعت کو پڑھا رہا ہوں تو طلبا ء مجھے اپنی حل شدہ مشقیں  برقی طریقے  کے ذریعے بھی بھیج سکتے ہیں۔ یہ آسان طریقہ کار ہے نیز  اس سے وقت اور کاغذ کی بچت ہوتی ہے  وغیرہ وغیرہ ۔ تاہم اسی دوران افزائش ِ نو کا ذریعہ حل شدہ مشقوں کی دیانت (integrity)پر سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ مجھے کیسے یقین حاصل ہو سکتا ہے کہ طالب علم نے انٹرنیٹ سے لینے کی بجائے خود مقالہ لکھا ہے؟

جب انسانی افعال انٹرنیٹ سے جڑتے ہیں تو ان کے خصائص بدل جاتے ہیں اورشاید ایسی تبدیلیاں اخلاقی مضمرات کی حامل ہوں ۔ انٹرنیٹ کی بدولت  اس قسم کی بے شمار تبدیلیاں وجود میں آ چکی ہیں ۔ کمپیوٹر اخلاقیات کے ذمہ ،ان تبدیلیوں کا سراغ لگانا اور پالیسی میں ان کی بدولت پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کی کاوش ہے ۔

جزو پنجم : مجازی حقیقت

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی سب سے زیادہ فلسفیانہ تجسس سے بھرپور صلاحیتیوں میں سے ایک ’’ مجازی حقیقت پر مبنی وحدانی کل  /سسٹم ‘‘  (virtual   reality   systems) ہے ۔ یہ ایسے وحدانی مرکب/سسٹم  (system) ہیں جو تصویر اور آواز پر مبنی  دنیا ؤں (environments)کو ظاہر کرتے ہیں  جن میں افراد خود کو آگے بڑھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہیں ۔ مجازی دنیا ؤں کو حقیقی زندگی کی عکاسی کرنے کی غرض سے  تخلیق کیا جا سکتا ہے اور بعد ازاں لوگوں کو ان کے لیے  تربیت دی جا سکتی  ہے ۔ مثال کے طور پر ، ہوابازوں کے لیے تربیتی اقدامات ۔ ا ن کو یکسر الٹ مقصد کے لیے بھی تخلیق کیا جا سکتا ہے یعنی  حقیقی کائنات سے بالکل الٹ اوصاف کی حامل  ۔ مثال کے طور پر ، فنتاسی  کھیل (fantasy   games)۔ ماہرین ِ اخلاقیات  نے مجازی حقیقت کی بدولت جنم لینے والے عمیق مسائل  کا بیڑا حال ہی میں اٹھایا ہے(بریے، 1999) ۔ مجازی حقیقت کے تحت افعال سے مراد  ہے کہ مجازی حقیقت پر مبنی وحدانی مرکبات /سسٹمز  کے تحت انفرادی رویہ کے اخلاقی احتساب کے ساتھ ساتھ اس امر کوبھی  دیکھا جائے کہ کیا شے داؤ پر لگی  ہے ۔ جب کوئی مجازی حقیقت پر مبنی وحدانی مرکبات/سسٹمز  کے تحت کوئی کام کرتا ہے تو اس سے کوئی فعل  ’’ سرزد  ‘‘  ہوتا ہے  خواہ  یہ  ایک غیرمرئی  فعل  ہی کیوں نہ ہو ۔ مثال کے طور پر ، ایک متشددانہ  فنتاسی کھیل میں  کسی کردار کو جان سے مارنا  ایک حقیقی انسان کو قتل کرنے کے برابر نہیں ہے ۔ بلاشبہ ، مجازی حقیقت  پر مبنی وحدانی مرکب   /سسٹم کے نتائج حقیقی دنیا میں بھی رونما  ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اس بات کا امکان ہے کہ ایک فنتاسی کھیل  میں ہونے والے  تشدد  کا  اثر حقیقی شخص  پر بھی ہو ۔ یا دوسری مثال کے مطابق ، ہوابازی کی نقالی کرنے والے سسٹم (flight   simulator)کے تحت   اڑنے کی مشق کرنے والے ایک ہواباز کی بابت فیصلہ کیا جائے کہ وہ حقیقی معنوں میں ہوابازی کے لیے شاید تیار نہیں ہے ۔ جوں جوں انسان مجازی حقیقت پر مبنی وحدانی مرکبات /سسٹم کے  تحت زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا  جائے گا ، ماہرین اخلاقیات کو اس بات کا تجزیہ کرنا پڑے گا کہ مجازی حقیقت کے تحت افعال سے کیا مراد  ہوتا ہے اور افراد سے سرزد ہونے والے  اس قسم کے افعال کا احتساب کیسے ہو تا ہے ۔

فصل چہارم: خلاصہ

زیرِ نظر باب   میں کمپیوٹر اخلاقیات کے شعبے میں تحقیقات کرنے والے فلسفیوں کے زیرِ بحث موضوعات کے ایک منتخب حصے کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ چونکہ کمپیوٹر اور انفارمیشن  ٹیکنالوجی ترقی پذیر ہیں نیز دن بہ دن انسانی اور قدرتی دنیا میں  ان کا عمل دخل بڑھتاہے ، نت نئے اخلاقی مسائل کا جنم ہونا ممکن ہے ۔ اس کے برعکس ،  جوں جوں ہم کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ساتھ اور اس کے ذریعے  افعال کو سرانجام دینے  کے عادی ہوتے جاتے ہیں ، ’’اخلاقیات‘‘   اور ’’ کمپیوٹر اخلاقیات‘‘  کے مابین دوری شاید بہت حد تک  کم  ہو جائے  ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search