معرکہء محبت اور سرفروشی کی تمنا۔ خطاب: اروندھتی رائے۔ ترجمہ: کبیر علی

 In ترجمہ

[30 جنوری 2021ء کو معروف ناول نگار اور دانشور اروندھتی رائے نے ایلگر پریشاد کے منچ پر ایک تقریر کی۔ انگریزی میں لکھی گئی اس تقریر کا متن انھوں نے شائع کروا دیا البتہ منچ پر سامعین کی سہولت کے لیے اس کا ہندی ترجمہ کروا کر پڑھا جو بہت کچھ ٹوٹا پھوٹا تھا۔ بھارت میں جاری کسان احتجاج کو ایک وسیع تر منظر نامے میں سمجھنے کے لیے یہ گفتگو نہایت سود مند ہو سکتی ہے۔ انگریزی متن کے لیے یہاں کلک کریں ۔ آخر میں تقریر کا ویڈیو لنک بھی چسپا ں کر دیا گیا ہے۔ مترجم]

میں ایلگر پریشاد 2021ء کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں   نے مجھے اس فورم پہ گفتگو کے لیے مدعو کیا کہ  جس روز روہت ویمولا کی  بتیسویں سالگرہ ہونا تھی اور   فتح معرکہء بھیما کوریگاؤں  1818ء  کا دن بھی۔ وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں جہاں برطانوی فوج کے تحت لڑنے والے مہار دستوں نے پیشوا سلطان باجی راؤ دوم کو شکست دی تھی  جس کی رعیت میں مہار اور دلت ذاتیں  بے رحمانہ ظلم کا شکار تھیں اور ایک مذہبی  فریضہ سمجھ کر  ناقابلِ بیان  طریقوں سے ان کی   تحقیر کی جاتی تھی۔

مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منچ سے  دیگر مقررین  کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر  کسان احتجاج کی حمایت کر سکوں  جو ان تین  کسان قوانین   کی فوری تنسیخ کا مطالبہ کر رہا ہے  جو  کروڑوں کسانوں اور   زراعت سے منسلک مزدوروں کے  گلے میں گھسیڑے گئے ہیں اور انھیں سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ آج ہم   دورانِ احتجاج   ہونے والی اموات پر   اپنے   غم و غصے  کا اظہار کرنے کو جمع ہوئے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں  پر  صورتحال، جہاں دو ماہ سے کسان پرامن  دھرنا دیے ہوئے ہیں،  تناؤ اور  خطرے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تحریک میں پھوٹ ڈالنے اور اس کی  ساکھ خراب کرنے کے لیے  ہر ممکن چال اور اشتعال انگیزی استعمال کی جا رہی ہے۔ اب ہمیں، پہلے سے   بھی زیادہ، کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہو گا۔  ہم یہاں ان درجنوں  سیاسی قیدیوں (بشمول  ان کے جنھیں  بھیما  کوریگاؤں 16  کہہ کر  پکارا جا رہا ہے)   کی رہائی کے مطالبے کے لیے بھی جمع ہوئے ہیں جنھیں   مضحکہ خیز  الزامات لگا کرسفاک   اینٹی-ٹیرر قوانین  کے تحت  گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے محض کامریڈ نہیں ہیں بلکہ  میرے ذاتی دوست بھی ہیں  جن کے ساتھ میں  نے قہقہے لگائے ہیں، چہل قدمی کی  ہے اور   اکٹھے کھانے کھائے ہیں۔ کوئی  آدمی ،  حتیٰ کہ شاید  خود  گرفتار  کرنے والے  بھی،   یہ  یقین نہیں رکھتا کہ   یہ لوگ  ان  فرسودہ جرائم میں ملوث ہیں جن کا  ان پر الزام ہے  یعنی  وزیرِ  اعظم  کے قتل کی منصوبہ سازی۔

 ہر کوئی جانتا ہے کہ  یہ لوگ   اپنی   دانشورانہ صراحت اور  اخلاقی  جرات  کی وجہ سے جیل میں  ہیں اور ان دونوں  خواص کو یہ   حکومت ایک نمایاں  خطرہ تصور کرتی ہے۔    ناموجود   ثبوتوں کی خانہ پُری کے لیے  بعض  ملزموں کے خلاف فردِ جرم  کئی ہزار صفحات  پہ  پھیلائی گئی ہے۔  کسی بھی  منصف کے لیے انھیں  پڑھنے کے لیے ہی  کئی  سال کا وقت درکار ہو گا ،  ان پر    کوئی    فیصلہ سنانا تو  بعد کی بات ہے۔

ایک  خطروں بھری تجویز

ان تھوپے گئے الزامات کے خلاف  اپنا دفاع اتنا ہی مشکل ہے  جتنا کہ ایک ایسے شخص کو جگانا جو   سونے کا ناٹک کر رہا ہو۔  ہم  سیکھ گئے ہیں  کہ ہندوستان میں  عدالتی   ازالہ جوئی   پر  تکیہ کرنا ایک خطرناک تجویز ہے۔ خیر یہ کب اور کہاں ہوا ہے کہ  عدالتوں نے ایک بار بھی    فسطائیت کی لہر کو   پلٹایا ہو؟   ہمارے ملک میں قوانین  کا نفاذ من بھاتا ہوتا ہے اور جس  کا انحصار آپ کی  کلاس، ذات،، لسانی شناخت، مذہب، جنس اور  سیاسی نظریات  پر ہوتا ہے۔ لہذا  جب ایک طرف  شعراء،  پادری، طلباء،  سماجی کارکن، اساتذہ اور وکلاء  جیل میں ہیں تو دوسری طرف   ہزاروں لوگوں کے  قاتل،   عادی ہتیارے،  دن دہاڑے  ہجوم گردی کرنے والے   غنڈے،  بدنام   جج،   زہریلے ٹی وی   میزبان     نہایت معقول  معاوضہ پاتے ہیں اور    اونچے مناصب  کی آرزو  رکھ سکتے ہیں، حتیٰ کہ سب سے اونچے منصب کی بھی! (اشارہ  وزارتِ عظمیٰ کی طرف ہے۔ مترجم)

 کوئی  اوسط ذہانت کا   آدمی بھی  اس     پیٹرن  کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا جو دلال اشتعالیوں نے   2018ء کی بھیما کوریگاؤں ریلی اور 2020ء  کے شہریت (مخالف)  ترمیمی قانون  اور اب  کسانوں کے احتجاج  کی ساکھ خراب کرنے  اور اسے سبوتاژ کرنے کے لیے   مستقل  استعمال کیا۔  انھیں   حاصل  تحفظ  چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے کہ  موجودہ  دورِ حکومت میں   یہ کس حمایت   کے مزے لوٹتے ہیں۔  میں آپ کو دکھاؤں گی کہ کس طرح  یہ  پیٹرن  عشروں تک  دہرائے جانے کے نتیجے میں یہ لوگ طاقت میں آئے  ہیں۔ اب جبکہ  صوبائی انتخابات  سر پر ہیں ، ہم   خوف سے  منتظر ہیں کہ  مغربی بنگال کے لوگوں  کے مقدر میں کیا لکھا ہے۔  پچھلے دو برسوں میں کارپوریٹ میڈ یا کی جانب سے   ایلگر  پریشاد کو بہ طور  ایونٹ اور بہ  طور ادارہ بے پناہ    بدنامی اور  شیطان سازی کا سامنا ہے۔  ایلگر پریشاد:  بہت سے عام لوگوں کے  ذہن میں  ان دو لفظوں  کو سن کر  مشکوک انقلابیوں –دہشت گردوں، جہادیوں، شہری  نکسل باڑیوں،  دلت  سیاہ چیتوں- کی تصویر ابھرتی ہے جو  بھارت کو تباہ کرنے پر  تلے ہوئے ہیں۔  اس بد القابی ، خطرے، خوف اور  پریشانی کے ماحول میں  اس نشست  کا  محض انعقاد ہی بہت حوصلے اور جرات کا کام ہے جسے  سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ یہاں  منچ پر موجود ہم   تمام لوگوں پہ لازم ہے کہ  جہاں تک ممکن ہو  ہم   بے  باکی سے  بات کریں۔

قریباً تین ہفتے قبل 06 جنوری کو  ہم نے دیکھا کہ  ایک  بڑا ہجوم   کنفیڈریٹ جھنڈے، ہتھیار،  سُولیاں، صلیبیں اٹھائے اور  اونی کپڑے  و شاخدار  سینگ پہنے   امریکی  کیپیوٹل پر پل پڑا، میرے ذہن میں یہی خیال آیا کہ، ”دھت تیرے کی،  ہمارے ملک میں تو  ہم پہلے ہی اس ہجوم  کے بھائی بندوں کی رعایا ہیں جنھیں نے ہمارا  کیپیٹول ہل ہتھیا لیا ہے۔ وہ جیت  گئے ہیں۔ “    وہ ہمارے اداروں پہ چڑھ دوڑے ہیں۔ ہمارے حکمران  روز ہمارے سامنے نئے نئے اونی لباس اور شاخدار سینگ  پہنے   ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمارا   پسندیدہ امرت  گائے کا پیشاب ہے۔   وہ   ہمارے ملک کے تمام جمہوری اداروں کو  کامیابی سے تباہ کرتے جارہے ہیں۔ امریکہ  تو شاید کنارے سے پلٹ کر  ایک سامراجی ’معمولہ‘ نما قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔  لیکن  یہاں بھارت میں ہم  صدیوں پرانے ماضی میں  دھکیلے جا رہے ہیں  جس سے  چھٹکارے  کے لیے ہم نے اتنی   جدوجہد کی تھی۔

 یہ ہم نہیں ہیں- یہاں ایلگر پریشاد میں اکٹھے ہونے والے  متشدد یا  انتہا پسند نہیں ہیں۔  یہ ہم نہیں ہیں جو  غیر قانونی  اور غیر آئینی طریقے سے  عمل کر رہے ہیں ۔  یہ ہم نہیں ہیں  جنھوں نے  ان  قتلِ عام  سے صرف نظر کیا  یا   کھلم کھلا    حمایت کی جن میں  ہزاروں مسلمان مارے گئے۔  یہ ہم نہیں ہیں  جو  چپ چاپ  تماشا دیکھتے رہے جبکہ  شہر کی گلیوں میں  دلتوں کو  کھلے عام  مارا جا رہا تھا۔  یہ ہم نہیں ہیں جو  لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہے ہیں اور  نفرت و تقسیم کے ذریعے حکومت کر رہے ہیں۔  یہ کام  وہ لوگ کر رہے ہیں جنھیں ہم نے  اپنی حکومت کے طور پہ منتخب کیا ہے اور  ان کی  پروپیگنڈہ  مشین  کر رہی ہے جو  خود کو میڈیا کہتی  ہے۔

بھیما کوریگاؤں کے معرکے کو  دو سو سال  ہو گئے۔ انگریز  چلے گئے ، مگر  استعمار کی ایک شکل جو   ان سے  صدیوں پرانی ہے ابھی تک باقی ہے۔ پیشوا چلے گئے مگر پیشوائی-براہمنیت- نہیں گئی۔ براہمنیت، یہاں کے سامعین کو تو  وضاحت کی ضرورت نہیں  لیکن  دوسرے ناواقف  لوگوں  کو بتاتی چلوں کہ براہمنیت وہ اصطلاح ہے جسے   ذات-مخالف تحریک جاتی-ویوستا (ذات پات کا نظام) کے لیے  تاریخی طور پہ استعمال کرتی آئی  ہے۔ اس سے مراد صرف براہمن نہیں ہوتے۔ براہمنیت گویا    ایک    مرمت کدے میں رہی ہے، اور  ایک جدید جمہوری نما لفظیات کا جامہ پہنے  برآمد ہوئی ہے اور    ذات پات  کے  نئے  تنظیمی مینویل اور پروگرام (نیا نہیں ، بلکہ مرمت شدہ) لائی  ہے  جس نے  ان دلت-بہوجن لوگوں کی سرکردگی میں  چلنے والی  سیاسی  جماعتوں کے لیے  وجودی چنوتی پیدا کر دی ہے جو  کبھی   کچھ  امید کا باعث ہوا کرتی تھیں۔

اور اس وقت،  اکیسویں صدی کی براہمنیت کے لیے منتخب واہن (گاڑی)  شدید دائیں بازو کی  براہمن کنٹرولڈ راشٹریہ سیوک سنگھ  ہے جس نے   ایک صدی کی    انتھک محنت کے بعد  اپنے  معروف ترین  رکن   نریندر مودی کی صورت میں   دہلی میں  حکومت   سنبھالی ہے۔

کارپوریٹ طبقہ

بہت سے لوگ، جن میں خود کارل مارکس بھی شامل تھا،  یہ  یقین رکھتے تھے کہ  جدید سرمایہ داری ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو ختم یا کم ازکم   کمزور کر دے گی۔ کیا اس نے کیا؟ دنیا بھر میں  سرمایہ داری نے اس  امر کو یقینی بنایا ہے کہ  دولت کم  سے کم ہاتھوں میں مرتکز رہے۔  بھارت میں 63 امیر ترین لوگ 130 کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے پیش کیے گئے 19-2018 کے   یونین بجٹ سے زیادہ دولت رکھتے ہیں۔ ایک حالیہ آکسفام تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھارت میں  کرونا وبا کے دوران جبکہ  لاک ڈاؤن کے  دوران  کروڑوں لوگ  نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ( اپریل 2020ء میں  ہر گھنٹے ایک لاکھ ستر ہزار لوگ بے روزگار ہو رہے تھے) بھارت کے ارب پتیوں کی دولت میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔  ایک سو امیر ترین لوگوں  ( ہم انھیں  کارپوریٹ طبقہ کہہ لیتے ہیں) نے اتنی دولت کمائی کہ ، اگر وہ چاہتے تو، بھارت  کے پونے چودہ کروڑ غریب ترین لوگوں میں سے ہر فرد کو  ایک لاکھ روپے  دیے جا سکتے تھے۔ ایک مرکزی  اخبار کی شہ  سرخی میں  اس خبر کو یوں  بیان کیا گیا: ”کرونا سے گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات: دولت، تعلیم،  جنس“۔ اس  رپورٹ  اور اس شہ سرخی میں  ایک لفظ  کم  ہے یعنی  ذات پات۔

سوال یہ ہے کہ یہ  چھوٹا سا کارپوریٹ طبقہ – جو بندرگاہوں،   کانوں، گیس کے کنووں،  ریفائنریوں، ٹیلی کمیونیکیشن،   تیز رفتار ڈیٹا اور  سیل فون کے  نیٹ ورکس، جامعات،  پیٹرو کیمیکل  پلانٹس، ہوٹلوں، ہسپتالوں،  کھانے کے مراکز اور  ٹیلی ویژن  کیبل نیٹ ورکس کا مالک ہے- کیا یہ طبقہ بھی ، جو   واقعتاً بھارت کا مالک  و منتظم  ہے، کسی ذات کا حامل ہے؟

بہت  حد تک اس کا جواب ’ہاں‘ میں ہے۔  بھارت کی بہت سی بڑی کارپوریشنز  خاندانی ملکیت ہیں۔کچھ کے نام ہم یہاں  بیان کرتے ہیں: ریلائنس انڈسٹریز (مکیش امبانی)،  اڈانی گروپ (گوتم اڈانی)،  آرسیلر متل (لکشمی متل)،  او-پی جندل گروپ (ساوِتری دیوی جندل)، بِرلا گروپ (کے-ایم برلا)۔  یہ سب لوگ خود کو  ویش  یعنی  تاجر ذات  سے بتاتے ہیں۔  یہ محض    خدائی عائد کردہ فرض ادا کر رہے ہیں یعنی  دولت کما رہے ہیں

کارپوریٹ میڈیا کی ملکیت اور  ان کے  مدیروں، کالم نگاروں اور  سینئر صحافیوں  کی  ذات کے بارے میں  ہونے والے تجرباتی  مطالعات  بتاتے ہیں کہ کس طرح   مراعات یافتہ ذاتیں  ( زیادہ تر  براہمن اور بنیے)   خبروں (حقیقی اور جعلی  ہر دو قسم ) کی تشکیل اور ترسیل  کے کام  پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔  دلت، آدیواسی اور   اب  تیزرفتاری  سے مسلمان  بھی اس  سارے  منظر نامے سے   تقریباً غائب ہیں۔    بڑی اور چھوٹی عدالتوں،  سول سروسز  کے اونچے  عہدوں،  فارن سروسز، چارٹرڈ اکاؤنٹوں  کی دنیا، یا پھر  تعلیم، صحت، صحافت   میں  پُر کشش نوکریوں، یا  سرکاری  حلقوں میں کہیں بھی صورتحال اس سے  مختلف نہیں ہے۔  جبکہ  براہمنوں اور ویشوں  کی  تعداد  آبادی کے دس فیصد سے بھی کم ہے۔  ذات  پات اور سرمایہ داری   نے   باہمی عمل  سے  ایک  نہایت  تباہ کن  اور  خصوصی  بھارتی  خواص کا حامل مرکب  تیار کیا ہے۔

 وزیرِ اعظم مودی، جو  کانگریس جماعت کی   موروثی  سیاست پہ  حملے کرتے نہیں تھکتے، ان کارپوریٹ  خاندانی –بادشاہتوں کی  حمایت و  بڑھوتری   میں پوری طرح سے  یکسو ہیں۔وہ  پالکی  بھی جس کی چلمن کے پیچھے مودی براجمان ہیں  ، اچھے بُرے سے قطع نظر،  بہرحال ویش و براہمن  کی  خاندانی ملکیتوں  میں  چلنے والی کارپوریٹ میڈیا سلطنتوں کے کندھوں ہی پر   ٹکی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پہ  دی ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، انڈیا ٹوڈے ، دانِک بھاسکر، دانِک جاگران وغیرہ۔    ریلائنس  انڈسٹریز کے پاس 27 چینلوں  کے   منتظمانہ  حصص ہیں۔  میں نے ”چلمن کے پیچھے بیٹھنے“ کا  لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ مودی نے   اپنے قریباً سات سالہ دور میں   کبھی   پریس سے  براہِ راست  خطاب نہیں کیا۔ ایک بار بھی نہیں۔

جب ایک  طرف  ہم   عوام  کے ذاتی ڈیٹا  کی  مائننگ اور  ہماری   پتلیوں  کی اسکیننگ ہو رہی ہے ، کارپوریٹ  دنیا کے لیے  ایک      چشم بند  نظام لایا گیا ہے تاکہ  اسے   موعودہ    کامل   وفاداری پیش کی جائے۔  2018ء میں  ایک  انتخابی  بانڈ منصوبہ  متعارف کروایا گیا تھا جس میں  یہ اجازت دی گئی تھی کہ نامعلوم لوگ سیاسی جماعتوں کو  ڈونیشن بھیج سکتے ہیں۔  پس اب   ہمارے پاس ایک  حقیقی، ادارہ جاتی، سختی سے   ہوا بند   پائپ لائن موجود ہے  جس میں  دولت  اور طاقت  کارپوریٹ اور سیاسی اشرافیہ کے  مابین گردش کرتی رہتی  ہے۔   پھر  ہمیں  اس پر زیادہ حیران نہیں  ہونا چاہیے کہ بھارتی جنتا پارٹی دنیا کی امیر ترین  سیاسی جماعت ہے۔

اور اس سے بھی کم حیرانی اس بات پر ہونی چاہیے کہ   جبکہ ایک طرف یہ  چھوٹی سی   طبقہ-ذات اشرافیہ عوام  کے نام پر اور  ہندو  نیشنلزم کے نام پر  اس ملک پر  اپنی گرفت  مضبوط تر کرتی جاتی ہے ، تو دوسری طرف  اس نے لوگوں کے ساتھ ، بشمول اپنے    ووٹروں کے، ایک  دشمن  طاقت کا سا سلوک شروع کر دیا ہے کہ جس سے معاملہ کرنے،  چالبازی سے  قابو کرنے،  گرفت میں لانے،    اچانک جا پکڑنے، سختی سے حملہ کرنے اور  آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گھاتی اعلانات اور  غیر قانونی   قوانین   کی  قوم  بنا دیا گیا ہے ۔

گھاتی اعلانات

نوٹ بندی نے  راتوں رات  معیشت کی  ریڑھ  مار دی۔

جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ  ستر لاکھ لوگوں کے  لیے  مہینوں پہ مشتمل  ناگہانی عسکری  و ڈیجیٹل  محاصرے پہ منتج ہوئی (انسانیت کے خلاف ایک ایسا جرم  جو ہمارے نام پر کیا گیا) اور   پوری دنیا نے یہ  عمل دیکھا۔  ایک سال بعد،  غیر معمولی   عزیمت کے حامل لوگ آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں باوجودیکہ  کشمیر کے جسمِ اجتماعی کی ہر ہڈی پے بہ پے سرکاری ظلم کے نتیجے میں ٹوٹ چکی ہے۔

 صریحاً مسلم دشمن ترمیمی قانون برائے شہریت اور  شہریوں کے قومی کھاتے   کا نتیجہ  یہ نکلا کہ  مسلم خواتین مہینوں تک احتجاج کرتی رہیں۔اس کا خاتمہ  شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے  مسلم   قتلِ عام  پر ہوا، جس میں خدائی  فوجداروں نے جلتی پہ تیل ڈالا اور  جسے پولیس دیکھتی رہی اور جس کا الزام  مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔  سیکڑوں نوجوان مسلمان مرد، طلبا اور  ایکٹیویسٹ بشمول عمر خالد، خالد سیفی، شرجیل امام، میران حیدر، نتاشا نروال اور  دیونگنا کالیتا  کے جیل  میں ہیں۔  احتجاجوں کو یوں پیش کیا جاتا ہے گویا یہ  اسلامی جہادی منصوبے ہوں۔

جو خواتین شاہین باغ کے شاندار  دھرنے ، جو  ملک بھر میں ہونے والی  مزاحمت کی  ریڑھ کی ہڈی  تھا،  کا ہراول دستہ  تھیں،  ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ تو   ”صنفی-آڑ“ کے طور پہ استعمال ہو رہی تھیں،  اور  آئین سے  کیے جانے والے عوامی  مطالبات ،جو  قریبا ًہر احتجاجی مقام پر کیے گئے  تھے، یہ کہہ کر رَد  کر دیے گئے کہ یہ تو ”سیکولر-آڑ“ ہیں۔  نتیجہ  یہی نکلتا ہے کہ  مسلمانوں سے متعلق ہر شے  ایک خود کار طرز پہ  ”جہادی“ (یہ اصطلاح غلط طور پہ  دہشت گردی کے کنائے کے طور پہ استعمال ہوتی ہے) ہے اور یہ کہ اس کے علاوہ ہر شے  محض تفصیلات ہے۔

جن پولیس والوں نے   شدید زخمی مسلم مردوں کو قومی ترانہ  گانے پہ مجبور کیا،    جبکہ وہ  سڑک پر ایک دوسرے پہ اٹے پڑے تھے، ان پہ مقدمہ کرنا تو دور کی بات ان کی شناخت تک نہیں ہوئی۔  زخمیوں میں سے ایک بعد ازاں چل بسا   جس کے گلے میں  ایک محبِ وطن پولیس لاٹھی گھسیڑی گئی تھی۔ اِس ماہ  وزیرِ داخلہ نے دہلی پولیس کو ”دنگوں“ سے نبرد آزما  ہونے پر  مبارکباد دی۔

 اور اب  قتلِ عام کے ایک ایک سال بعد، جبکہ  مجروح کمیونٹی  سنبھلنے کی کوشش کر رہی ہے،  بجرنگ دَل اور  وشوا ہندو پریشاد اعلان کر رہے ہیں کہ وہ  ایودھیا میں، انھی گلیوں میں  جہاں قتلِ عام ہوا، رام مندر کی تعمیر  کے لیے  راتھ یاترا اور  موٹرسائیکل پریڈ کر کے   چندہ جمع کریں گے۔

 ہمیں گھاتی  لاک ڈاؤن کا بھی سامنا کرنا پڑا یعنی جب  محض چار گھنٹے  کے نوٹس پہ 130کروڑ  سے زائد  عوام  کو   محصور کر  دیا گیا۔  لاکھوں  شہری مزدوروں کو  گھر جانے کے لیے  ہزاروں کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کیا گیا  اور ساتھ ہی ساتھ انھیں  مجرموں  کی طرح پیٹا  بھی گیا۔

ایک طرف  وبا بڑھ رہی تھی  تو دوسری طرف،  ریاست جموں و کشمیر میں سٹیٹس تبدیلی  کے ردِ عمل  کے طور پہ، چین نے لداخ میں  بھارتی علاقے کے  کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔   ہماری  بیچاری  حکومت کو  یہ ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا  گویا  یہ قبضہ ہوا ہی نہیں۔ کوئی جنگ ہوتی ہے یا نہیں،   منفی نمو کی حامل  معیشت  اپنے ہزاروں سپاہیوں کو مسلح اور  جنگ کے لیے ہمہ وقت  تیار رہنے کے لیے  پیسہ صرف  کرتی رہے گی۔  منفی درجہ حرارت میں بہت سے  سپاہیوں کی جانیں  تو  محض  موسم ہی کی نذر ہو جائیں  گی۔

ان  تھوپے  گئے مصائب  کے بعد اب ہمیں  تین کسان قوانین کا بھی سامنا ہے جو   بھارتی  زراعت کی کمر توڑدیں گے، سارا کنٹرول  کارپوریشنز کے ہاتھ میں  دے دیں گے  اور  کسانوں کو  کسی بھی   قانونی چارہ جوئی  سے  صاف  روک دیں گے ، ان کے آئینی حقوق کا تو ذکر ہی کیا۔

یہ سب کچھ دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے ہم  ایک گاڑی کو  پرزے پرزے ہوتے دیکھیں،  اس کا انجن ٹوٹتے، اس کے پہیے الگ ہوتے ،  اس کی  نشستیں   بکھرتے، اور اس کا ڈھانچہ ہائی وے پہ پڑا دیکھیں جبکہ  دوسری گاڑیاں ، جن کے  ڈرائیوروں نے  اونی لباس اور  شاخدار سینگ  نہیں پہنے ہوئے،  قریب سے گزرتی جائیں۔

اجتماعی اظہارِ غضب

یہی وجہ ہے  کہ ہمیں اس ایلگر کی  شدید ضرورت ہے –اس  مستقل، اجتماعی، مزاحمتی  اظہارِ ناراضی کی – براہمنیت کے خلاف،  سرمایہ داری کے خلاف، اسلاموفوبیا کے خلاف، پدرسریت کے خلاف۔  پدرسریت جو  ان سب  کے اندر موجود ہے- کیونکہ  اگر  مَرد  خواتین کو  کنٹرول نہیں کرتے یا نہیں  کر سکتے ، تو انھیں معلوم ہے کہ وہ کچھ بھی کنٹرول نہیں کر سکتے۔

جبکہ  وبا  پھیل رہی ہے، جبکہ  کسان سڑکوں پر ہیں،  بی-جے-پی کے زیرِ انتظام صوبوں میں  تبدیلیء مذہب مخالف قوانین پھرتی سے منظور کیے جا رہے ہیں۔  میں ان کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتی ہوں کیونکہ  یہ   اس  تشویش کے  سمجھنے  میں   بہت مددگار ہیں جو اس  حکومت کو  ذات پات کے متعلق، مردانگی کے متعلق، مسلمانوں اور عیسائیوں کے متعلق، محبت، خواتین،  ڈیموگرافی اور تاریخ کے متعلق لاحق ہے۔

یوپی کا  انسدادِ غیر قانونی تبدیلیء مذہب آرڈیننس 2020ء (جسے عرفِ عام میں  لَو-جہاد مخالف قانون کہا جاتا ہے)  بمشکل ایک مہینہ پرانا  ہے۔  محض اتنے عرصے میں ہی کئی شادیاں   برباد  کی جا چکی ہیں، خاندانوں کے خلاف  مقدمات درج  کیے جا چکے ہیں، اور  درجنوں مسلم مَرد جیلوں میں ہیں۔ لہذا اب سے، بڑا گوشت کھانے پر ہجومی موت  کا نشانہ بننے کے ساتھ ساتھ جو انھوں نے نہیں کھایا ،  گائے کشی پر جو انھوں نے  ذبح نہیں کی، جرائم پر جو انھوں نے نہیں کیے(اگرچہ مسلمانوں کا  قتل اب بتدریج ایک مجرمانہ فعل  تصور کیا جانے لگا ہے)، ان  لطیفوں پر جیل جانے کے ساتھ ساتھ جو انھوں نے   نہیں بنائے (ملاحظہ ہو  نوجوان کامیڈین منور فاروقی کیس) اب مسلمانوں کو  محبت میں  مبتلا ہونے اور  شادی کرنے کے جرم میں بھی جیل جانا پڑا کرے گا۔

اس  آرڈیننس کے متعلق  اپنی  رائے کو  میں کچھ سوالات  کی صورت میں سامنے لانا چاہتی ہوں مثلاً یہ کہ  آپ ”مذہب“ کی تعریف کس طرح کریں گے؟  کیا وہ شخص جس نے کسی  مذہبی آدمی کو  ملحد بننے پر آمادہ کیا  وہ بھی  مقدمے کا سزاوار  ٹھہرے گا؟

یوپی کے آرڈیننس 2020ٰء میں لکھا ہے کہ ”برائے انسدادِ  غیر قانونی تبدیلی ء مذہب  بذریعہ  گمراہ کن ترجمانی،  طاقت،  نامناسب  دباؤ، زبردستی، لالچ یا  دھوکہ دہی یا  بذریعہ شادی۔۔۔ “   لالچ کی تعریف میں تحائف،  خوشیاں، اچھی شہرت کے سکولوں میں  مفت تعلیم، یا پھر ایک بہتر زندگی کے وعدے شامل ہیں (جبکہ یہ قریباً وہی باتیں ہیں جو  بھارت میں  قریباً  ہر  ارینج شادی میں ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہیں)۔

ملزم (وہ شخص جو تبدیلیء مذہب  کا باعث بنتا ہے) کو ایک سے پانچ سال  قید کی سزا ہو سکتی ہے۔  الزام لگانے  والا کوئی  بھی  رکنِ خاندان  حتیٰ کہ دور کا رشتے دار  بھی ہو سکتا ہے۔  بارِ ثبوت   ملزم کے سَر  ہو گا۔ عدالت   ازالے    کے طور پہ  ملزم کے  اثاثوں  سے   ”متاثرہ “ شخص کو پانچ لاکھ روپے  تک  دِلوا سکتی ہے۔  آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ  اس سارے  نظام سے  بھتے اور بلیک میل کے  لامحدود امکانات پیدا ہو ں گے۔

سب سے دلچسپ   حصہ تو یہ ہے: اگر  متاثرہ شخص ایک نابالغ،  خاتون،  شیڈیولڈ ذات کا رکن، یا شیڈیولڈ قبیلے  کا رکن ہے تو  ملزم کو ملنے والی سزا  دوگنا ہو جائے گی یعنی  دو سے دس سال تک کی قید۔ دوسرے لفظوں میں یہ آرڈیننس خواتین، دَلِتوں اور آدیواسیوں کو  ایک نابالغ کے مساوی  سمجھتا ہے۔  یہ ہم سب کو نابالغ  باور کرتا ہے: ہمیں   ہمارے  فیصلوں  کے لیے  ذمے دار بالغ  نہیں سمجھتا۔   یوپی حکومت کی نظر میں  صرف   اونچی ذات کا ہندو مَرد ہی   صحیح معنوں میں  بااختیار قرار پاتا ہے۔

یہ وہی   جذبہ ہے جس  کے تحت  بھارتی چیف جسٹس نے پوچھا تھا کہ  خواتین (جو کئی  حوالوں سے  بھارتی  زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں) کو کسان احتجاجوں میں کیوں  ”رکھا“ گیا ہے۔ اور مدھیہ پردیش کی  حکومت نے  تجویز پیش کی کہ  وہ ملازم پیشہ خواتین جو اپنے  خاندانوں کے ساتھ نہیں رہتیں  خود کو  تھانوں میں  رجسٹر ڈ کروا لیں  تاکہ پولیس انھیں  ان  کی  حفاظت کے واسطے  زیرِ نگرانی  رکھ  سکے۔

ذات پات سے متعلق تشویش

اگر مدر ٹریسا زندہ ہوتیں  تو اس آرڈیننس کے  تحت انھیں ضرور جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔  میرا اندازہ ہے کہ دس سال قید اور   عمر بھر کا جرمانہ –اگر   ان لوگوں کی تعداد دیکھی جائے جنھیں انھوں نے   عیسائی کیا۔  یہ سزا غریب بھارت میں  کام کرنے والے   ہر عیسائی پادری کا مقدر ہو تی۔

اور اس شخص کو بھی ملتی جس نے کہا تھا کہ:

 ”چونکہ ہم بدقسمتی سے خود کو ہندو کہتے ہیں  لہذا ہمارے ساتھ ایسا  سلوک ہوتا ہے۔  اگر ہم کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوتے تو کوئی ہمارے ساتھ یہ سلوک کرنے کی جرات نہ کرتا۔ کوئی بھی ایسا مذہب اختیار کر لیجئے جو آپ کو  برابری کا مقام اور  سلوک  مہیا کرے۔  اب ہم اپنی غلطی کو سدھاریں گے۔“

آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ یہ  بابا صاحب امبیڈکر کے  الفاظ ہیں۔  اس  میں صریح لفظوں میں   بڑے پیمانے پر   ایسی تبدیلی مذہب کی دعوت دی گئی ہے کہ جس میں  ایک بہتر طرزِ زندگی کا وعدہ کیا گیا ہو۔  اس آرڈیننس کے تحت،  جس میں ”بڑے پیمانے کی تبدیلیء مذہب“ کی تعریف  کچھ یوں کی گئی ہے ”جب دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جائے“، امبیڈکر کے الفاظ انھیں مجرم بنا  ڈالیں گے۔ غالباً مہاتما  پھولے  کو بھی  سزا ملے گی کیونکہ انھوں نے اِن  الفاظ کی صورت میں  بڑے پیمانے کی تبدیلیء مذہب  کی  کھلی حمایت کی تھی:

” مسلمانوں نے،   مکار   آریا بھٹوں کی    کندہ   حجری مورتیوں کو تباہ کرتے ہوئے  انھیں زبردستی   غلام بنا  لیا  اور  ان  کے پنجوں سے  بڑی تعداد میں شودروں  اور اَتی شودروں کو چھڑا یا اور انھیں  مسلمان بنایا، انھیں مسلم  مذہب  میں شامل کیا ۔  نہ صرف یہ ، بلکہ ان کے ساتھ  ایک ہی دستر  خوان پہ  طعام کو فروغ دیا اور  ان کے ساتھ  باہمی شادیاں کیں اور انھیں برابری کے  تمام حقوق دیے۔۔۔“

برصغیر  کی آبادی میں  موجود   کروڑوں سکھ، مسلمان، عیسائی،   اور بدھوں  کی اکثریت اس  بات کا بین ثبوت  ہے کہ  ایک تاریخی تبدیلی اور  بڑے پیمانے  کی  مذہب بدلی ہوئی  تھی۔ ”ہندو آبادی“ میں تیز رفتار کمی ہی وہ امر تھا جس کے نتیجے میں     اونچی  ذات    کے ہاں  ڈیموگرافی کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی اور  اس نے اس سیاست کو جنم دیا  جسے آج  ہندوتوا کہا جاتا ہے۔

 تاہم آج، جبکہ آر-ایس-ایس   طاقت  میں  ہے،  یہ لہر  پلٹ گئی ہے۔   اب  بڑے پیمانے پر صرف وہی تبدیلیء مذہب  ہو رہی ہے جسے   وِشوا ہندو پرشاد منعقد کروا رہی ہے (اس عمل کو  ”گھر واپسی“ کا نام دیا گیا ہے)  اور جسے انیسویں صدی کے اواخر میں  اصلاح پسند ہندو  گروہوں نے شروع کیا تھا۔ گھر واپسی  میں  جنگل میں رہنے والے قبیلہ باسیوں کو  ہندو دھرم میں ”لوٹانا“ بھی شامل ہے۔  لیکن یہ عمل شدھی (تطہیر) کی رسم سے پیشتر انجام نہیں دیا جائے گا تاکہ  ”گھر“ سے  بھٹکے رہنے کے دوران  چمٹ جانے والی آلائشوں کو دھویا جا سکے۔

یوپی  کا  آرڈیننس اس  تبدیلیء مذہب سے کیسے معاملہ کرے گا کیونکہ  منطق کے  حساب سے تو یہ  عمل بھی  مجرمانہ قرار پائے گا؟ اس میں ایک شق شامل کی گئی ہے جس کے مطابق: ” اگر بالفرض،  کوئی مرد/عورت   ایک ایسا مذہب قبول کرتی/کرتا ہے  جس پہ وہ موجودہ مذہب  سے قبل ایمان رکھتا تھا تو  اس کی  مذہب بدلی  اس  آرڈیننس  کے تحت مذہب بدلی قرار نہیں پائے گی“۔

 اس طرح یہ  آرڈیننس  اس اسطور ے کو جاری رکھتا  ہے  نیز  اسے قانونی بناتا ہے کہ  ہندوازم ایک قدیم   مقامی  مذہب   ہے جو  برصغیر  کے   سیکڑوں مقامی قبائل اور دَلِتوں اور دراوڑوں کے مذاہب  سے قبل موجود تھا اور  وہ اسی سے نکلے   ہیں۔  یہ بات غلط اور  غیر تاریخی ہے۔

اساطیر بطور تاریخ

بھارت میں، یہ وہ طریقے ہیں جن کے ذریعے   اساطیر کو تاریخ اور تاریخ کو اساطیر بنایا جانتا ہے۔   اونچی  ذات کے  تذکرہ نگاروں کو ا س میں کچھ تضاد دکھائی نہیں دیتا کہ وہ بہ یک وقت  مقامی ہونے اور  ساتھ ہی ساتھ  آریا فاتحین   کی نسل سے ہونے   کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اس کا  انحصا ر اس بات پر ہوتا ہے کہ کس موقع پر  کونسا موقف ان کے  لیے فائدہ مند ہے۔  جنوبی افریقہ میں اپنے  کیریئر کے  آغاز میں گاندھی نے،  جبکہ وہ ڈربن  ڈاکخانے میں  ہندوستانیوں کے لیے  الگ  دروازہ چاہتے تھے تاکہ انھیں   کالے افریقیوں والے دروازے سے داخل نہ ہونا پڑے جنھیں  وہ اکثر   ”کافر“ اور ”وحشی“ قرار دیتے  تھے، یہ  کہا کہ  ہندوستانیوں اور گوروں کا  آغاز ” ایک ہی مشترک  منبع ، جسے  ہند-آریائی کہا جاتا ہے“ سے ہوا۔ انھوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ    اونچی  ذات کے  ” مسافر ہندوستانیوں“ کو  مظلوم ذات کے  معاہد  مزدوروں  سے  الگ  شمار کیا جائے۔  یہ 1893ء کی بات ہے۔  لیکن یہ  سرکس   ابھی  تک  رک نہیں سکی۔

آج یہاں موجود مقررین کا تنوع  ایلگر پریشاد کی دانشورانہ صلاحیت کا غماز ہے جو یہ دیکھ سکتی  ہے کہ  ہم سب پر  ہونے والا  حملہ ہمہ جہت ہے اور اِس طرف یا اُس طرف  تک ہی محدود نہیں ہے۔  اس حکومت کو کوئی شے اس سے زیادہ  باعثِ مسرت نہیں ہوتی   جیسا کہ اس وقت جب ہم خود کو  ہوا بند خانوں میں  بند کر لیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی ہودیوں میں  مقید ہو  کر  کے  پانی میں ادھر ادھر  غصے سے چھپاکے مارتے ہیں،  اور ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات یا پھر اپنی کمیونٹی کے لیے  کام کر رہا ہوتا ہے- ہم  بڑا منظر نامہ کبھی  نہیں دیکھ پاتے  اور  ہمارا غصہ اکثر  ایک دوسرے پر ہی صرف ہو جاتا ہے۔

اپنے متعین تالابوں کے  کناروں  کو توڑنے کے بعد ہی   ہم ایک دریا میں  ڈھل پاتے ہیں۔ اور ایک  ناقابلِ بند دھارا بن کر بہہ سکتے ہیں۔اس کام کے لیے ہمیں   اپنی بندشوں سے باہر نکلنا ہو گا، ہمیں  روہت ویمولا  کی طرح خواب دیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔  وہ آج یہاں ہمارے ساتھ ہے، ہمارے درمیان، ایک پوری نئی نسل کے لیے روشن مثال، موت کے باوجود کیونکہ  وہ خواب  دیکھتے مرا۔ وہ اس  امر پہ اصرار  کرتے مرا کہ   وہ اپنی انسانیت، اپنی  آرزوؤں اور  اپنی دانشورانہ  جستجو  کو  بھرپور طریقے سے شرمندہ ء تعبیر کرنے  کا حق رکھتا ہے۔ اس نے   نچڑنے سے  ، سکڑنے سے، اور اپنے لیے تیار  کیے  گئے سانچے میں    ڈھلنے  سے انکار کر دیا۔  اس نے ان القابات  کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جو حقیقی دنیا اس پر تھوپنا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ خاکِ ستارہ سے کم کسی شے  سے نہیں بنا۔  وہ ایک ستارہ بن چکا ہے۔

 اپنی شناختوں سے ماورا

ہمیں ان پھندوں  سے محتاط رہنا ہو گا جو  ہمیں محدود کرتے  اور   ہماری پرواز میں کوتاہی لاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی   محض اپنی شناختوں کا  مجموعہ نہیں ہے۔  ہم وہ بھی ہیں مگر ہم اس سے  کہیں زیادہ ہیں۔ جب ہم اپنے دشمنوں کے خلاف مجتمع ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے دوستوں کی پہچان بھی ہونی چاہیے۔  ہمیں  اپنے حامی ضرور تلاش کرنے چاہییں کیونکہ  ہم میں سے کوئی بھی یہ جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا۔  پچھلے سال شہریت  قانون  کے  خلاف  ہونے والے  جراتمندانہ احتجاج اور   اب  عظیم الشان  کسان احتجاج نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔بہت سی کسان تنظیمیں جو  اکٹھی ہوئی ہیں مختلف نظریاتی عقائد اور  مختلف  تواریخ رکھنے والے لوگوں کی نمائندہ ہیں۔  بڑے اور چھوٹے  کسانوں میں،  زمین دار اور بے زمیں  زرعی کارکنوں میں،  جٹ سکھوں اور مذہبی سکھوں میں ،  بائیں بازوں کی تنظیموں اور   مرکز  پسند تنظیموں  میں گہرے  تضادات ہیں۔

ذات پات کے تضادات بھی ہیں  اور  ذات پات پہ مبنی  خوفناک تشدد بھی ، جیسا کہ  کل بنت سنگھ نے بتایا جس کے دونوں بازو اور ٹانگ  2006 ء میں  کاٹ ڈالے گئے تھے۔  یہ  سارے اختلافات دفن نہیں ہوئے۔  ان پر بات کی گئی  ہے-جیسا کہ  رندیپ مڈوکے نے ، جنھیں آج یہاں ہونا تھا، اپنی جراتمندانہ  دستاویزی فلم ”بے زمین“ بنائی ۔ لیکن اس  سب کے باوجود، وہ سب مل کر  اس صورتحال سے لڑنے آئے ہیں  جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ  ایک وجودی جنگ ہے۔

 شاید اس شہر میں، جہاں امبیڈکر کو حرفاً بلیک میل کیا گیا کہ وہ  پونا ایکٹ پر دستخط کر دیں ، اور جہاں جوتیبا اور  ساویتری بائی پھولے نے اپنا اپنا انقلابی کام کیا تھا، ہم اپنی جدوجہد کو ایک نام دے سکتے ہیں۔ شاید اس کا نام ستیہ شودھک  ریزسٹنس یعنی  ایس-ایس-آر (بمقابلہ  آر-ایس-ایس) ہونا چاہیے۔

نفرت کے خلاف  محبت کی جنگ! محبت  کے لیے ایک معرکہ ! یہ ضرور سرفروشی کے جذبے سے لڑا اور خوبصورتی سے جیتا جانا چاہیے۔

دھنے واد!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search