زنگار نامہ: عامر خاکوانی (تبصرہ: بلال حسن بھٹی)

 In تاثرات

زیر نظر کتاب ”زنگار نامہ“ عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ صحافت کے شعبے سے وہ عرصہ چوبیس سال سے وابستہ ہیں۔ اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز ہی انہوں نے ”جنگ“ اخبار سے کیا جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اخبار سمجھا جاتا تھا۔ تین سال بعد 2002 میں جب ”ایکسپریس“ اخبار کا آغاز ہوا تو وہاں وہ بطور میگزین انچارج کام کرنے لگے۔ ”زنگار“ کے نام سے انہوں نے 2004 میں کالم لکھنا شروع کیا۔ ایکسپریس میں دس سال گزارنے کے بعد 2012 میں انہوں نے ”دنیا“ اخبار کو بطور  میگزین ایڈیٹر اور کالم نگار جوائن کیا۔ پانچ سال بعد 2017 میں جب” 92 نیوز“ اخبار کا اجرا ہوا تو وہ اس کی بانی ٹیم میں شامل ہوئے اور تاحال وہیں کام کر رہے ہیں۔

 ان کی پہلی کتاب ”زنگار“ کے عنوان سے 2017 میں شائع ہوچکی ہے۔ ”زنگار“ ان کے ابتدائی آٹھ سالوں میں شائع ہونے والے کالموں کے انتخاب پر مشتمل تھی۔ دوسری کتاب ”زنگار نامہ“ 2020 میں شائع ہوئی جو بعد کے آٹھ سالوں میں شائع ہونے والوں کالموں کا انتخاب ہے۔ اخباروں میں روزانہ بیسیوں کالم لکھے جاتے ہیں۔ ہر روز نئے موضوعات سامنے آتے ہیں اور پرانے موضوعات پس پشت چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں آٹھ سال پرانے کالم تو اب تک باسی ہو چکے ہوں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جب کسی مہربان نے کہا کہ ” زنگار نامہ“ پڑھو گے تو میں نے اپنے روایتی انداز میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ پرانے کالموں کے علاوہ دوسری چیز جس نے مجھے یہ کتاب نہ پڑھنے پر اکسایا وہ اس کے سرورق پر لکھا  جملہ تھا ”تحریریں جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں“ـ ۔  میں ایک روایتی سست انسان ہوں اور مجھے زندگی کو بدلنے کا شوق نہیں ہے۔ اگر کوئی بدلنے کی بات بھی کرے تو کوفت سی ہونے لگتی ہے۔ لہذا ایسے انسان جو زندگی بدلنے کے گُر اپنی تقریروں میں بتاتے ہیں یا وہ کتابیں جو یکدم امیر ہونے کے طریقے بتاتی ہیں، یا ”بہترین لیڈر بننے کے گُر“ سکھاتی ہیں، یا جن میں ”دنیا کے عظیم انسانوں“ کی باتیں لکھیں ہوں تو میں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ پہلی نظر میں جب کتاب کے سرورق پر ”زندگی بدلنے“ والا جملہ دیکھا تو اِسے بھی ان کتابوں میں شامل کر لیا جن کو پڑھنے سے بچنا اپنے لیے لازم سمجھتا ہوں۔

”سوشل میڈیا رائٹرز“ گروپ کی طرف سے کتاب موصول ہونے تک تو اسے پڑھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن مضامین کی فہرست دیکھتے ہی مجھے اپنی رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ اگر یہ تحریریں کسی کی زندگی نہ بھی بدلیں پھر بھی آپ کو اپنی موجودہ زندگی پر سوال اٹھانے کے لیے اکساتی ضرور ہیں۔ یعنی تبدیلی کے بیج ضرور بوتی ہیں۔ ایک عام قاری کی سوچ بدلنے کے لیے ان کالموں میں بہت سا فکری مواد موجود ہے۔ ازراہ تفنن وہ جو زندگی بدلنے والی سطر تھی وہ مصنف کی خواہش کم اور پبلشر کے ”خلوص“ کا اظہار زیادہ لگ رہی تھی کیونکہ ایسی ”پنچ لائن“ کے بغیر ان کو کتاب چھاپ دینے کا غالباً  کوئی تجربہ نہیں ہے۔ خاکوانی صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف سیاسی موضوعات یا روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے مسائل پر ہی نہیں لکھتے بلکہ کرکٹ، تصوف، کتاب خاص کر فکشن، فلم اور دیگر معاشرتی مسائل بھی ان کی دلچسپی کا میدان ہیں۔  گو میرا سیاسی، معاشرتی اور مذہبی امور پر ان کے کالموں سے زیادہ تر اختلاف رہا ہے لیکن کرکٹ، فلم اور کتاب خاص کر فکشن پر ان کی رائے کو شوق سے پڑھتا ہوں۔ اس کتاب کا دیباچہ جہاں ایک کالم نگار کی زندگی کے بیس سالہ صحافتی سفر کی روداد ہے وہاں اس میں نئے لکھنے والوں خاص کر صحافت کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے بہت مفید مشورے موجود ہیں۔ ان میں سیاست اور سیاسی موضوعات پر عبور حاصل کرنا اور کتاب پڑھنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اُن مشکلات کا بھی ذکر ملتا ہے جن کا ہر صحافی کو اپنے کیرئیر کے آغاز میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

چار سو سولہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں دس موضوعات پر مشتمل تقریباً 89 کالموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ ان موضوعات میں موٹیویشنل کالم، عمل خیر، کتابوں کی دنیا، زندگی کے سبق، یادیں، تصوف، فلم، نقطہ نظر، شخصیات اور اولاد کی تربیت جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری مختلف کیفیات سے گزرتا ہے۔  کبھی مصنف عمل خیر کی دعوت دیتا مبلغ، مختلف موضوعات پر ترغیبی مثالیں دے کر کچھ بہتر کرنے کے لیے اکساتا مقرر، عہد رفتہ کو یاد کرتا ایک ناسٹیلجک بابا، تصوف پر معلومات پہنچاتا صوفی، ’درداں دی ماری دلڑی‘کا ذکر کرتا ہوا دکھی انسان، فکشن کی معلومات دیتا استاد، فلموں میں دلچسپی رکھنے والا سینما کا دلدادہ اور اپنے وسیب کی بدحالی، مایوسی اور غربت کے دھکڑے سناتا ریاستی یا سرائیکی نظر آتا ہے۔

ان کالموں میں ایک بات جو سب سے اہم نظر آئی وہ نیکی اور عمل خیر کی طرف دعوت ہے۔ چھوٹی چھوٹی زندہ مثالوں کا ذکر کر کے عمل خیر کے لیے اکساتے یہ کالم  ہمیں اپنی زندگیوں میں قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں، دوسروں کو نرم اور رحم دل ہونے کی تلقین کرتے ہیں نیز بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے گُر بتاتے ہیں۔ اپنے کالم ”نالج لیس ڈگریاں“ جو 3 ستمبر 2013  کو شائع ہوا، اس میں ہماری تعلیمی زبوں حالی کا جو نمونہ انہوں نے پیش کیا اور چھے سال بعد اس پر لکھے نوٹ میں اس صورتحال کے مزید خراب ہونے کا اعتراف کیا، وہ سو فیصد سچ ہے۔ میں بطور طالب علم اپنے تجربے میں آنے والے واقعات کے حوالے سے اس موضوع کو تھوڑا آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں صرف طالب علم ہی کتاب سے دور نہیں ہیں بلکہ پروفیسر حضرات کی حالت اس ضمن میں طالب علموں جیسی ہی ہے۔ یہ زبوں حالی پبلک اور پرائیویٹ جامعات میں جب آگے بٹتی ہے تو مزید شدت اختیار کر لیتی ہے۔ سرکاری اداروں کے پروفیسرز کا کتاب سے تعلق آپ کو کسی نا کسی سطح پر نظر آ جائے گا۔ لیکن نجی شعبہ جہاں پڑھانے والے زیادہ تر وزٹنگ ہوتے ہیں وہاں یہ صورتحال زیادہ خراب نظر آتی ہے۔ ایک سرکاری ادارے میں پڑھتے ہوئے2017 میں جب ایک پروفیسر نے میری فیس بک وال پر پچھلے سال پڑھی جانے والی کتابوں کی فہرست دیکھی تو اگلے دن اس بات پر سرزنش کی کہ اس میں تمہارے نصاب کی کوئی کتاب کیوں شامل نہیں ہے۔ مزید یہ بھی کہ میں یہ کتابیں پڑھ کر محض اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ مجبوراً مجھے ان کو بلاک کرنا پڑا بلکہ ان کے ساتھ والے کیبن میں موجود پروفیسر، جن کے ساتھ کتابوں پر میرا تبادلہ خیال ہو جاتا تھا، ان کو بھی بلاک کرنا پڑا۔ سرکاری ادارے سے جب میں نجی ادارے میں گیا تو پتہ چلا کہ یہاں تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ مثلاً ایک لیکچرر جو اپنے وقت میں ایم فل کی ٹاپر تھیں ان کے بقول بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کو خود قتل کروایا تھا۔ حوالہ دے کر تصیح کرنے پر ان کا فرمان تھا کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں، پہلے جا کر کچھ پڑھو۔ ایک لیکچرر نے انگریزی کے مکمل طور پر لینگوا فرانکا نہ بننے کی صورت میں ایٹمی دھماکوں سے دنیا تباہ ہونے کی پیشن گوئی کی جو کہ آج تک بھی کسی ہم جماعت کو سمجھ نہیں آ سکی۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال شاعری کی کلاس میں ہوتی تھی۔ جس میں بہت سی جامعات میں اپنے ریسرچ پیپر پڑھنے والے لیکچرر صاحب ہمیں نظموں کی تشریح بھی ویسے ہی کرواتے تھے جیسے کوئی بچہ میٹرک میں اردو یا پنجابی کی کتاب میں شامل نظموں کی تشریح کرتا ہے۔ ستم یہ کہ تصحیح کر کے آپ خود پھنس جاتے تھے۔ اساتذہ کی قابلیت کا واحد معیار انتظامیہ میں روابط ہونا یا زیادہ سے زیادہ نمبر لینا ہے، پھر چاہے انہیں اپنے مضمون کے متعلق جدید کتابوں یا نئے موضوعات پر ہونے والی تحقیق کا علم ہو یا نہ ہو۔ لہذا ہمارے طالب علموں کے بنیادی معلومات سے تہی اور کتب بینی سے دور ہونے کے بہت حد تک ذمہ دار انکے اساتذہ بھی ہیں۔ 

”زنگار نامہ“ میں’کتابوں کی دنیا‘ کے سلسلے میں بہترین کتابوں اور دنیا کے عظیم ادیبوں کا تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ دوستووئیسکی دنیا کا وہ واحد ادیب ہے جس کی لکھی کتابوں کو پڑھنے اور اس کے کرداروں کو جینے کی خواہش اکثر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کارمازوف برادران شاید کہیں دوبارہ شائع ہو رہا ہے۔ ایک کالم میں جہاں ٹالسٹائی کے ناول ”اینا کرینا“ کا ذکر تھا وہاں بالزاک کے ناول ”مادام باواری“ کا ذکر نہ ہونے سے مجھے بین الاقوامی ادب کی فہرست نامکمل سی محسوس ہوئی۔ تین چار کالموں میں مصنف مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں کا ذکر کرتے ہوئے اس امر پر مایوس ہوتے ہیں کہ ان پر نقادوں نے توجہ نہیں دی۔ حالانکہ نقادوں کی توجہ کے بغیر بھی تارڑ کو پڑھنے والوں کی تعداد بے شمار ہے۔ تارڑ جیسے ادیب کو اس سے فرق ہی نہیں پڑتا کہ نقاد اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ”خس و خاشاک زمانے“ یقیناً اردو کے تین چار بڑے ناولوں میں شامل ہو گا۔ میری ذاتی رائے میں اگر تارڑ کے ناولوں کی درجہ بندی ہو تو ”قربت مرگ میں محبت“ چوتھے یا پانچویں نمبر پر آئے گا کجا یہ کہ اردو کے دس بڑے ناولوں میں اس کا شمار کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنف کی فہرست میں شامل حسن منظر صاحب کا ناول ”دھنی بخش کے بیٹے“ یقیناً اردو ادب کا بہت اہم ناول ہے لیکن اس میں کوئی خاص علامت نگاری یا کسی دیگر اہم خوبی کا مظاہرہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ہاں علامت نگاری میں ان کے ناول ”حبس“ میں کی گئی کوشش بہت توانا اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت شاندار ہے۔ کتاب بین طبقے میں حسن منظر کے ناولوں اور افسانوں کا ذکر بہت کم سننے کو ملتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ادبی مراکز سے دور مقیم ہیں۔ کالم ”جو راستے میں ہمت ہار بیٹھے“ میں ” آواز دوست“ ، ” لوح ایام“ اور ” سفر نصیب“ کے مصنف جناب مختار مسعود کی آخری کتاب ”حرف شوق “ کا تذکرہ ہے۔ ”حرف شوق“ اگرچہ مختار مسعود کی دیگر کتب کی طرح پزیرائی تو حاصل نہیں کر سکی لیکن اس کتاب کو پڑھنا کسی کے لیے بھی بہت معلوماتی اور خوشگوار تجربہ ہو سکتا ہے۔ علی گڑھ کا ذکر مختار مسعود کی قلم سے پڑھ کر یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اس عظیم درس گاہ میں موجود ہیں جس نے برصغیر کا علمی، سیاسی اور سماجی شعور بیدار کیا۔ 

 کتاب میں ’ یادیں‘ کے سلسلے کے تینوں کالم اداس کر دینے والے ہیں ۔ ” درداں دی ماڑی دلڑی “ میں جوان اولاد کی موت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ روحی بانو کے دکھ پر تو ان کی وفات کے بعد بہت کچھ لکھا گیا اور دل افسردہ ہوتا رہا لیکن فہمیدہ ریاض کے بیٹے کی وفات پر ان کی لکھی نظم ” تم کبیر“ نے تو دل چیر کر رکھ دیا۔ جوان اولاد کی موت کا زخم واقعی روح تک کو زخمی کر دیتا ہے۔ ”ٹوٹتی مالا“ اس سلسلے کا ایک اور افسردہ کر دینے والا کالم ہے جو زندگی کے گزرتے دنوں میں بڑھتی یاسیت اور گزرتے وقت میں ساتھ چھوڑ جانے والے اپنوں کے غم سے پیدا ہونے والے خلا کا تذکرہ کرتا ہے۔

خاکوانی صاحب فلمیں دیکھنے کے بہت شوقین ہیں۔ نہ صرف فلم دیکھتے ہیں بلکہ فلم پر تبصرہ لکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ ان کے کالموں میں جہاں اکثر فلموں کا ذکر ملتا ہے وہیں فیس بک گروپ ”موویز پلانٹ“ میں فلموں پر ان کی بے لاگ رائے بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ آصف محمود صاحب کے بعد یہ خاکوانی صاحب ہی ہیں جنہوں نے ترکی ڈرامے ”ارتغل“ کا ذکر بہت شدت سے کیا اور بے شمار لوگوں کو اسے دیکھنے پر اکسایا۔ وہ ہندی انڈسٹری پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی توصیف بھی کرتے ہیں۔ خاص کر اپنی زبان اور ثقافت کو جو اہمیت ہندی ڈرامہ انڈسٹری دے رہی ہے وہ اسے قابل داد گردانتے ہیں۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ چونکہ کتاب بہت ضخیم ہے اور کالم بھی آٹھ سالوں کے طویل دورانیے پر مشتمل ہیں، اس لیے بعض کالموں میں چند باتیں دہرائی جاتی ہیں جو پڑھنے والے کے لیے بوریت کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کالموں کو جمع کرنے میں عجلت نہ دکھائی جاتی تو دس، پندرہ کالم کم کر کے کتاب کو پڑھنے والوں کے لیے مزید دلچسپ بنایا جا سکتا تھا۔ ایک اور بات یہ کہ شاید جو کاپی میرے حصے میں آئی ہے اس کے ساتھ ہی کوئی مسئلہ ہے یا یہ کوئی جدید تکنیک ہے جس کا استعمال کیا گیا ہے کہ فہرست میں جن سلسلوں کے تحت کالم جمع کیے گئے ہیں، ان میں صفحہ جاتی ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مثلاً موٹیویشنل کالم والے سلسلے کا پہلا کالم ”چاکلیٹ بار“ صفحہ نمبر 51 پر واقع ہے جبکہ دوسرا کالم ”تاریک عدسوں والی عینک“صفحہ نمبر 214پر موجود ہے اور تیسرا کالم ”انتخاب آپ کو کرنا ہے“صفحہ نمبر199 پر دستیاب ہے۔ اسی طرح کتابوں کی دنیا کے سلسلے میں شامل پہلا کالم صفحہ نمبر 343پر واقع ہے جبکہ اسی سلسلے کا دوسرا کالم  صفحہ نمبر 11پر دستیاب ہے اور یہی بے ترتیبی باقی موضوعات میں پائی جاتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ کتاب اپنی صنف میں ایک بہترین اضافہ ہے جس میں روایتی انداز سے ہٹ کر قارئین کی دلچسپی کے لیے بے شمار چیزیں موجود ہیں۔ مختلف موضوعات کے تحت لکھے کالموں کو ایک جگہ یکجا کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ اس موضوعاتی رنگا رنگی میں کتاب خریدنے والا کبھی یکسر مایوس نہیں ہو سکتا۔ 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search