پاکستانی دانشوروں کے گورکھ دھندے اور اردو زبان: ژاں پال سارتر پاکستانی

 In تاثرات

ہمارے قوم پرستوں، لبرلوں، کانگریسیوں اور جمعیت علمائے گاندھی کے پیروکار دانشوروں نے ہمیشہ تاریخ کو بحیثیت مجموعی دیکھنے اور اس کے ارتقاء سے پیدا ہونے والے حالات کو تسلیم کرنے کے بجائے انفرادی واقعات اور شخصیات سے نتائج نکالنے کا جو گورکھ دھندہ پھیلا رکھا ہے، اس سے سوائے کنفیوژن کے کچھ برآمد نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ اور حقیقتاً ان کا مقصد بھی سوائے کنفیوژن پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں۔

مثال کے طور پر اٹھارہویں صدی کے ہندوستان کو ہی لیجیے۔ پختون قوم پرستوں کے نزدیک اس دور کا ہیرو احمد شاہ ابدالی ہے جس سے لبرلز اور کانگریسیوں کو شدید چڑ ہے۔ ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس دور کے ہیرو مراٹھا چھترپتی شیواجی کے وارثین یعنی پیشوا نانا صاحب اور اس کی اولاد ہے۔ تیسری جانب مشرقی ہندوستان خصوصاً بنگال و بہار کے علاقوں کے مسلمانوں کے نزدیک ہیرو مرشد قلی خان اور اس کے وارثین بشمول نواب سراج الدولہ ہیں جبکہ ان کے ولن انگریزیعنی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔ چوتھی جانب جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد دکن کے نظام ہی باقی رہ جاتے ہیں جنہیں کوئی ہیرو اور کوئی ولن سمجھ سکتا ہے۔ اس صدی کی دلچسپ صورتحال شمالی ہندوستان میں ہے جہاں دم توڑتی ہوئی مغل سلطنت پر ایک سے بڑھ کر ایک نا اہل بادشاہ حکومت کر رہا ہے اور اس کے ہمسائے میں رام پور، بریلی، مراد آباد اور پیلی بھیت جیسے علاقوں پر مشتمل روہیل کھنڈ کی ریاست ہے جس پر سادات اور خالص پشتون قبائیلیوں کی حکومت ہے جو روہیلہ کہلاتے تھے۔ ان کے پڑوسی اودھ کے نواب ہیں جو نسلی طوری نیشاپوری ایرانی ہیں۔ پنجاب کے مغربی علاقوں پر احمد شاہ ابدالی کا قبضہ ہے، شمال مشرق میں جاٹ حکمران ہیں، مشرقی حصے پر مغلوں کا رہا سہا قبضہ ہے جبکہ جنوب مشرقی پنجاب سے لے کر راجستھان تک مراٹھا سلطنت کے زیر نگین ہیں۔ اسی دور میں پنجاب کے سکھ بھی آہستہ آہستہ مجتمع ہو کر اپنی حکومت تشکیل دینے کے قریب ہیں۔

اس طرح ہندوستان پر تین بڑے مذاہب کا قبضہ ہے :  مراٹھا جو ہندو ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی جو عیسائی ہے جبکہ درانی سلطنت، مغل، نوابینِ روہیل کھنڈ، اودھ، بنگال اور دکن کے نظام مسلمان ہیں۔ مسلمان ریاستوں میں مذہبی حوالے سے دلچسپ صورتحال ہے :  درانی سلطنت ،سنی مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ہے جبکہ روہیل کھنڈ جو موجودہ یوپی کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے اور اودھ ، شیعہ مسلمان ریاستیں ہیں۔ بنگال میں بھی شیعہ اور سنی دونوں موجود ہیں جبکہ یہی صورتحال دکن کے علاوہ مغل سلطنت میں بھی ہے۔

اب جب بھی اس دور کے متعلق دانشوروں کی گفتگو سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس دانشور کا ذہن کس فریکوینسی پر آپریٹ کر رہا ہے۔ پختون قوم پرست احمد شاہ ابدالی کو گلوریفائی تو کرے گا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ اس کے اتحادی روہیلے اور نوابین اودھ شیعہ تھے۔ شیعہ دانشور ابدالی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے اسے حملہ آور غیر ملکی قرار دے گا البتہ یہ نہیں بتائے گا کہ اس کا ساتھ دینے والا سب سے بڑا نام نواب اودھ شجاع الدولہ کا ہے جو شیعہ تھا۔ قوم پرست پنجابی ابدالی کو حملہ آور غیر ملکی تو قرار دے گا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ مراٹھوں کے ظلم سے تنگ آئے پنجابی جاٹوں اور سکھوں نے ابدالی کے خلاف مراٹھوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ متحدہ ہندوستان کا حامی مراٹھوں کے گن گائے گا لیکن دلی، اودھ، پنجاب اور بنگال میں ان کی لوٹ مار کا ذکر گول کر جائے گا۔ جبکہ جدیدیت کا حامی دانشور انگریزوں کی بر صغیر آمد کو باعث رحمت قرار دیتے ہوئے یہ فراموش کر دے گا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر کو کس ظالمانہ طریقے سے لوٹ کر کنگال کیا تھا۔

آخری بات ۔۔۔۔۔۔ بادشاہ، سب برے ہوتے ہیں، بس اتنا سا فرق ہے کہ کوئی کم برا ہوتا ہے اور کوئی زیادہ برا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اچھا کوئی نہیں ہوتا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو جاننا چاہوں گا کہ سلاطین دہلی اور مغلوں کے مرکزی دربار کی نہیں بلکہ ان کے گورنرز یعنی والی کابل، والی لاہور، والی ملتان اور والی بنگال کے درباروں کی آفیشل (ریاستی )  زبان کیا تھی؟

چلیےیہ تو بیرونی حملہ آور تھے ۔۔۔۔

کیا احمد شاہ ابدالی کے دربار کی زبان پشتو تھی؟

کیا رنجیت کے دربار کی زبان پنجابی تھی؟

کیا سراج الدولہ کے دربار کی زبان بنگالی تھی؟

چلیےیہ بھی چھوڑ دیجیے ۔۔۔۔ کیا آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی بیشتر کارروائی انگریزی میں نہیں ہوتی تھی؟ اب یہ نہ کہیے گا کہ ایسا انگریز حاکم کے باعث ہوتا تھا کیونکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مردان کا کانگریسی/ مسلم لیگی، مدراس کے کانگریسی/ مسلم لیگی کی زبان سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔۔۔۔۔ ایسے میں کسی زبان کو تو رابطے کا کام انجام دینا تھا، سو انگریزی ہی سہی۔

آخری بات ۔۔۔۔۔۔ جب گاندھی جی ہندی کو پورے برصغیر کی ایک بھاشا بنانے پر تلے ہوئے تھے تو ہمارے علاقائی زبانوں کے پرچارک کہاں سو رہے تھے؟

ان کی نیند پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی کیوں کھلی؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب اسی سے متصل ایک دوسری مثال  اردو بطور پاکستان کی  ’’ریاستی زبان‘‘ کے مدعا کو لیجئے ۔

قائد اعظم علیہ الرحمہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب کے دوران جو ’’غلط باتیں‘‘ کہیں، وہ یہ ہیں:

الف:    جہاں تک زبان کا معاملہ ہے تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی ’’سٹیٹ لینگوایج‘‘ اردو ہوگی۔

ب:      ریاست کی تمام اکائیوں اور صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ اردو ہی ہو سکتی ہے۔

ج:       آپ کو اختیار ہے کہ آپ اپنے صوبوں کے لیے، اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے، اپنی خواہشات کے مطابق، مناسب وقت پر، اپنی زبان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ (یعنی آئین سازی کے ذریعے)

اب دیکھتے ہیں کہ ہماری طرح ہی ایک اور کثیر القومیتی ریاست بھارت کا آئین اس سلسلے میں کیا کہتا ہے:

  • آئین کے آرٹیکل 343 کی شق نمبر 1 کے تحت:
    • بھارتی یونین کی سرکاری زبان دیوناگری رسم الخط میں ہندی ہوگی۔ اعداد کی بین الاقوامی صورت استعمال کی جائے گی ۔
    • شق نمبر 2 کے تحت اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آئین کے نفاذ کے پندرہ برس تک انگریزی بطور دفتری زبان رائج رکھی جائے گی جس کے بعد صدارتی حکم کے ذریعے دیوناگری رسم الخط میں ہندی رائج کر دی جائے گی۔
    • شق نمبر 3 یہ کہتی ہے کہ اس عرصے کے بعد پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے انگریزی جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
  • آئین کا آرٹیکل 344 کہتا ہے کہ ایک کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جو ہندی کو ملک بھر رائج کرنے کے سفارشات مرتب کر کے صدر جمہوریہ کو پیش کرے گی۔ کمیشن کے ارکان بھارت کی ثقافتی، صنعتی اور سائنسی ترقی کے پیش نظر ہندی نہ بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی آراء کا خیال بھی رکھیں گے۔
  • آرٹیکل 345 کے تحت ریاستوں کو اپنی مقامی ایک یا ایک زائد اور ہندی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
  • آرٹیکل 346 کے مطابق ریاستیں آپس میں اور وفاق سے رابطے کے لیے وقتی طور پر انگریزی اور بعد ازاں ہندی کا استعمال کریں گی یا اس زبان کا جس پر ریاستیں اور وفاق باہم متفق ہوں۔
  • آرٹیکل 347 کے تحت صدر جمہوریہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں (کثیر تعداد) کی خواہش پر کسی زبان کو شیڈولڈ زبانوں شامل کر سکتے ہیں۔
  • آرٹیکل 348 میں پارلیمانی کارروائی اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کی عدالتی کارروائی انگریزی میں رکھنے کی ہدایت ہے جب تک کہ پارلیمنٹ اس کے مخالف قانون منظور نہ کر لے۔
  • آرٹیکل 349 میں آئین کے نفاذ کے پندرہ برس کے دوران زبان کے متعلق بنائے کمیشن کی قانونی کارروائی کی وضاحت ہے۔
  • آرٹیکل 350 کے تحت تنازعات کی صورت میں کوئی بھی شخص ریاستی یا وفاقی افسر یا ادارے کے خلاف شکایت وفاق یا ریاست کے زیر استعمال کسی زبان میں بھی دائر کر سکتا ہے۔
  • آرٹیکل 351 زبان کے معاملے کو مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وفاقی حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ ہندی زبان کی ترویج، ترقی اور حفاظت کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ پورے بھارت میں یہ زبان رابطے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکے۔
  • اس آئین کے آرٹیکل 345 کے تحت بھارت میں 22 زبانیں شیڈولڈ لینگوایجز قرار دی گئی ہیں جو مختلف ریاستوں میں دفتری زبانوں کے طور بھی رائج ہیں۔

اب آپ دیانتداری سے بتائیے کہ کیا بھارتی آئین من و عن وہی نہیں کہہ رہا جو قائد اعظم کی اس تقریر کے محض 3 نکات بیان کر رہے ہیں؟ لیکن آپ پاکستان میں دیکھیے ۔۔۔۔ بھانت بھانت کے دانشور قائد اعظم کی تقریر کو ’’غلطی‘‘ سے لے کر ’’آمرانہ سوچ‘‘ تک قرار دیتے نظر آئیں گے اور کوئی یہ بات نہیں بتائے گا  کہ اس ملک میں دو جمہوری اور ایک غیر جمہوری آئین بنے ہیں، آئین میں ترمیم کا راستہ بھی کھلا ہے ۔۔۔۔ پھر بھی زبان کے معاملے کو سلجھانے سے ہمیں کس نے روکا ہے؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب  وہ بات بھی جان لیجیے جس کا ذکر قوم پرستوں ،لبرلوں، کانگریسیوں اور جمعیت علمائے گاندھی کے پیروکار دانشور کبھی نہیں کرتے اور نہ کبھی کریں گے ۔

بقول  محمد   عارف  گل صاحب ، بدھ 25 فروری1948 ء کو دستور ساز اسمبلی پاکستان کا اجلاس قائداعظم کی صدارت میں شروع ہوا۔ مشرقی پاکستان سے ہندو رکن اسمبلی مسٹر دھریندر ناتھ دتہ نے تحریک پیش کی کہ بنگالی کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔اس پر اسمبلی میں بحث ہوئی۔ بنگال سے صرف  ایک ہندو رکن مسٹر پریم ہری برما نے تائید جبکہ بنگال کے باقی تمام ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اور خواجہ ناظم الدین، مولوی تمیزالدین اور لیاقت علی خان نے باقائدہ دلائل بھی پیش کیے۔ علاوہ ازیں ،  بنگال سے عبداللہ محمود، حسین شہید سہروردی، نورالامین، اے کے فضل حق، حمیدالحق چودھری، عبدالحمید، ایم ایچ اصفہانی، خواجہ شہاب الدین، ابوالمسعود ابوعبدالحمید، عزیزالدین احمد، مفیض الدین۔احمد، ڈاکٹر اے ایم مالک، ابوالقاسم خان اور مولوی ابراہیم خان نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

مزید براں ، 1830 ء میں بنگال میں انگریز سرکا ر نے ایک سروے کروایاجسے آدم رپورٹ کا نام دیا گیا۔ سروے میں بنگالی عوام سے پوچھا گیا کہ وہ سکولوں میں بچوں کو کس زبان میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو بنگالی مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ہمارے بچوں کو اردو میں تعلیم دی جائے جبکہ ہندوؤں نے بنگالی زبان کا کہا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب اگر اس تاریخی پس منظر کو مجتمع کر کے دیکھا جائے یہ بات بخوبی سمجھ آتی ہے کہ یہاں بے شمار مقامی زبانیں موجود ہونے کے ساتھ ساتھ  صدیوں کے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے اردو  نے جسے ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا ایک ایسی زبان کی حیثیت اختیار کر لی جسے  بلا شک و تردید برصغیر کے طول و عرض میں رابطے کی سب  سے بڑی زبان قرار دیا جاسکتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search