احمد جاوید صاحب پر حالیہ نقد، کچھ گزارشات: طارق عباس

 In تاثرات

محترم جناب احمد جاوید صاحب پر کی گئی حالیہ تنقیدات اگرچہ پبلسٹی حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں لیکن  اس کے باوجود  راقم نے یہ ضروری سمجھا کہ احمد جاوید صاحب پر دو نوجوان حضرات کبیر علی صاحب اور حسین احمد صاحب کی تحریرات کا جائزہ لیاجائے۔ اور جائزہ ڈاٹ پی کے پر ہی اسے شائع کئے جانے پر بندہ ٹیم جائزہ کا ممنون ہے۔

تمہیداً عرض ہے کہ جس طرح احمد جاوید صاحب کی شخصیت الحمد للہ کسی تعارف کی محتاج نہیں اس کے بالکل برعکس ہمارے دونوں نوجوان ناقدین  تعارف کے بری طرح محتاج ہیں۔راقم کی  بہترین معلومات کی حد تک (جو کہ یقیناً غلط ہو سکتی ہیں) دونوں حضرات کسی بھی میدانِ علم میں مبتدیانہ درجے کی بھی پہچان نہیں رکھتے۔ اوردین،  ادب، فلسفہ، تاریخ، نفسیات، تصوف؛ان میں سے کسی  بھی دائرے  میں دونوں احباب کے فہم کو غلو کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مبتدیانہ کہا جا سکتا ہے۔یقیناً ایساپس منظر رکھنے والے نوجوانوں کی احمد جاوید صاحب جیسی  نابغۂ روزگار اور عبقری شخصیت پر کی جانے والی تنقید ادنیٰ درجے میں بھی لائق  مطالعہ نہیں۔

اس کے باوصف  راقم کو یہ سطور رقم کرنے کی ضرورت اپنے ہم عمر  نوجوان دوستوں کو فرقِ مراتب ملحوظ رکھنے کی درخواست اور کچھ پڑھنے لکھنے کی جانب راغب کرنے  کی غرض سے ہے۔ کیونکہ بالعموم یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جوانی کے اوائل میں دو چار کُتب کا مطالعہ نوجوان کا دماغ اس طرح خراب کر ڈالتا ہے  کہ  وہ بے اختیار پُکار اٹھتا ہے کہ کون رازی اور کون غزالی (اور کون احمد جاوید؟)

اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم دونوں احباب کے مضامین کا ترتیب وار جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

عزیزم کبیر علی صاحب کی تحریر  کا  خلاصہ یا خاکہ کچھ یوں بنتا دکھائی دیتا ہے کہ اول تو احمد جاوید صاحب بنیادی طور پر ادب کے آدمی ہیں، دوم کبیر صاحب کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ وہ اپنے معذرت نامے میں (ایک مرتبہ پھر سے) تنقید کر رہے ہیں یا واقعتاً معذرت طلب کر رہے ہیں یا کبیر علی صاحب کے الفاظ میں ’’آخر وہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟‘‘۔ تیسرا نکتہ غالباً انہوں نے یہ اٹھایا ہے کہ احمد جاوید صاحب اپنے بیانات میں مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے  علم کی حدود ملحوظ نہیں رکھتے اور جو مبالغہ ادب میں حُسن کہلاتا ہے، وہی مبالغہ (مبینہ طور پر) جب احمد جاوید صاحب ’’اخلاقی، علمی، یا متصوفانہ‘‘ علوم کے میدان میں کرتے ہیں تو بقول کبیر صاحب کے، کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔

موصوف لکھتے ہیں: ’’ اخلاقی ،علمی یا متصوفانہ معاملات میں یہ مبالغہ کئی مسائل پیدا کردیتا ہے، جو جاوید صاحب کی تحریروں اور انٹرویوز میں نظر آتے رہتے ہیں۔‘‘

راقم  کو چونکہ جناب احمد جاوید صاحب سے شرفِ تلمذ رہا ہے  اس وجہ سے یہ بات راقم اپنے فہم کی حد تک پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ علمی معاملات میں جس طرح کی ٹھوس، pinpointed، اور categorical رائے جناب احمد جاوید صاحب کی ہوتی ہے ، ایسی clarity راقم نے استاذ نادر انصاری  کی exceptionکے علاوہ کہیں بھی ،کبھی بھی نہیں پائی۔ جہاں تک اخلاق کا معاملہ ہے تو نہایت احترام سے عرض ہے کہ کبیر علی صاحب کے مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن کے اخلاقی معاملات پہ نقد کو توجہ دینا یقیناً مضحکہ خیز ہو گا، اس کے با وصف عرض ہے کہ  اخلاقی معاملات میں مبالغہ کسے کہتے ہیں؟ یا متصوفانہ معاملات میں مبالغہ کس چڑیا کا نام ہے؟ اپنے آپ کو بھی نوجوان کہنے کی جسارت کرتے ہوئے عرض ہے کہ ہم نوجوانان چونکہ ویڈیو جنریشن کے نمائندگان ہیں اس لئے غامدی صاحب  اور احمد جاوید صاحب کی تصوف پر الف نامی پروگرام کی ایک عدد ویڈیو دیکھ کر ہم الحمد للہ راہِ سلوک کے جملہ معاملات کو نہ صرف  سمجھ چکے ہوتے ہیں بلکہ اُس پر سیر حاصل نقد کرنے کی پوزیشن میں بھی بزعمِ خود آ چکے ہوتے ہیں۔

راقم یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ اخلاقی اور متصوفانہ معاملات میں   مبالغہ سے ہمارے فاضل دوست کیا مراد لے رہے ہیں۔ کیا جاوید صاحب سے مولانا ایوب دہلوی کے اخلاقِ حسنہ کے بیان میں مبالغے کا گناہ سرزد ہوا ہے؟یا  مولانا مودودی کی عظمت کی تحسین میں  اُنہوں نے تمام حدود عبور کر ڈالی تھیں؟ اب جاوید صاحب کی خوش قسمتی کو ہم اپنی بد قسمتی قرار دیں تو ہمیں اجازت ہے۔ پر اس میں جاوید صاحب کا کیا قصور ہے کہ انہیں مولانا ایوب دہلوی جیسے  خلاق اور اسلاف کی قدم بہ قدم پیروی کرنے والا استاذ ملا؟

اسی سوال کا اعادہ راقم  تصوف کے میدان میں  کرنا چاہے گا کہ کیا جاوید صاحب سے تصوف کی علمی بحثوں  کے دوران مبالغے کا گُناہ سرزد ہوا ہے یا  تصوُف کی عملی جہتوں سے متعلق کئے گئے (مبینہ) مبالغے پر ہمارے فاضل ناقد فکر مند ہیں؟

دوم ہم اس نکتہ کی جانب آتےہیں جو بغیر کسی سر منہ اور پیر رکھنے کے باوصف ہمارے  نام نہاد علمی حلقوں میں مشہور ہے اور جس کو ہمارے دوست کبیر علی صاحب نے بھی بنا سوچے سمجھے دہرا ڈالا ہے کہ ’’جاوید صاحب بنیادی طور پر ادب کے آدمی ہیں‘‘۔

ہمارے دوست نے  یہاں متکلمانہ معصومیت  (چونکہ متکلمانہ چالاکی تو جاوید صاحب دکھا بیٹھے ہیں) کا ارتکاب کرتے ہوئے  فرمایا ہے کہ جاوید صاحب ’بنیادی‘ طور پر ادب کے آدمی ہیں۔ چلئے ’بنیادی‘ طور پر وہ ادب کے آدمی ہیں جس میں ہم جاوید صاحب کو رعایت دیتے ہوئے اردو، برطانوی، فارسی، فرانسیسی، روسی، اطالوی، اور دیگر ادبیات کا ماہر مان لیتے ہیں، باقی رہ گئے فلسفہ، تاریخ، نفسیات، اور سب سے بڑھ کر دین، چونکہ ان جہتوں میں ہمارے دوست کے مطابق جاوید صاحب  ’بنیادی‘ طور پرکوئی علم نہیں رکھتے  اس لئے یہاں وہ ادب والا معاملہ بشکل مبالغہ  کچھ اس طرز پر کرتے ہیں کہ  بات کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ اس پر عرض ہے کہ جاوید صاحب کے فلسفے پر لیکچر زکتابی شکل میں موجود ہیں، وہاں انہوں نے دنیائے فلسفہ کی ایک اوریجنل theorization کی ہے۔ یا  دیگر بہت سے علمی موضوعات ہیں جن پر جاوید صاحب نے ’طبع آزمائی‘ کی ہے۔ ہمارے فاضل احباب نے اُن تمام علمی کاوشوں کو جن میں جاوید صاحب ’بنیادی‘ طور پر qualified  بھی نہیں ہیں اور اس وجہ سے اُن کی ’گرفت‘ کرنا بہت آسان ہو سکتی تھی، یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایک سوشل ایشو کو موضوعِ سُخن بنایا۔  موضوع کا انتخاب بھی ہمارے فاضل دوستوں کی علمی منہج  اور سطح کا عکاس ہے، گزارش ہے کہ کبھی کسی علمی موضوع پر نقد فرمانے کی طبع آزمائی کریں،  کیونکہ academic تنقید علم و فکر کو زندہ و درخشندہ رکھتی ہے جبکہ  سوشل ایشوز پر تنقید بہت آسان بھی ہوتی ہے اور نہایت subjective ہونے کی وجہ سے گرفت میں بھی بآسانی نہیں آتی، اس پہ مستزاد کہ ناقد qualified بھی نہ ہو۔

جہاں کبیر علی صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’’آخر جاوید صاحب کہنا کیا چاہ رہے ہیں‘‘ وہاں عزیزم حسین احمد صاحب نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ جاوید صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں، اور اس تیقن کے ساتھ کہ لسانیات کا معروف جُملہ ’’منطوق مفہوم نہیں ہوتا‘‘ دفعتاً بے معنی سا لگنے لگا ہے۔بلکہ حسین صاحب کی تفہیم کی سطح دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ وہ مرادِ متکلم سے بھی آگے وہاں تک رسائی حاصل کر چُکے تھے جہاں  خود متکلم اپنی مراد سے ناواقف ہوتا ہے۔ جہاں عزیزم کبیر علی نے  ’’ مجیب الرحمٰن شامی ایسے سلیم القلب نے ناگواری کا اظہار کیا تو جاوید صاحب رقت میں مبتلا ہو گئے‘‘، ’’واعظانہ بلند آہنگی‘‘، ’’ ان کا وضاحتی بیان ’’عذرِ گناہ بد تر از گناہ‘‘ کی ایک اچھی مثال ہے‘‘،’’ نیت کی صفائی کی اطلاع دینے کے بعد وہ مزید فرماتے ہیں‘‘، ’’ گویا نیت اور عمل ہر دو کی پاکیزگی پہ انھیں اطمینان ہے‘‘۔’’ان شاءاللہ‘‘ کی آڑ میں مفتی تقی عثمانی صاحب کی گواہی بھی لے آئے۔‘‘،’’ وہ ’’حمیت جاہلیہ‘‘ سے لیس ہو کر جاوید صاحب پر حملہ آور ہوئے ہیں اور اپنی معصومیت پہ شرح صدر رکھنے کے باوجود جاوید صاحب نے گھبراہٹ میں ناکردہ گناہ پہ معذرت (؟) طلب کر لی۔‘‘،’’ یہاں اپنی فضیلت کے ضمن میں انھوں نے ’’اخلاقی قواعد سے نابلد‘‘ اور ’’متکبرانہ کلچر‘‘ کا شکار مہتممینِ مدارس کی رزالت اور اپنی اخلاقی برتری کے کچھ قصے بھی بیان کیے ہیں‘‘،’’ میرا خیال ہے کہ اس متکلمانہ چالاکی کو ’’احسان مندی‘‘ یا انکساری وغیرہ قرار دینے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔‘‘،’’ بلاجواز اتنا زور لگا کر احسان مندی پیدا کرنے میں اگر اپنی عظمت کی لذت محسوس ہوتی ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘،’’ انھوں نے ایک ہی سانس میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا زکریا کاندھلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی سے اپنی ارادت کا اظہار فرما کر دیوبند کے تین بڑے دھاروں یعنی بالترتیب جمعیتی، تبلیغی اور تھانوی گروہ کو  رام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘،’’ان کی اس تحریر سے مصلحت کوشی اور واعظانہ ملمع کاری کو کھرچ دیا جائے تو ان کا سادہ بیان کچھ یوں بنتا ہے:’’میرے پرانے کلپ میں کچھ بھی قابلِ گرفت نہیں اور میں کچھ استثناؤں کے ساتھ اب بھی مذہبی لوگوں کو بدزبان اور جھوٹا پاتا ہوں‘‘، ’’ جاوید صاحب نے سیدھی بات کہنے کے بجائے بہ یک وقت معذرت اور سابقہ طرزِ عمل کی توثیق کا ایسا انوکھا امتزاج پیش کیا ہے کہ سارے معاملے کو چُوں چُوں کا مربہ بنا دیا ہے ‘‘، جیسے بازاری فقرات کا استعمال کیا ہے وہ ان کی تحریر کو ہماری نوجوان نسل کا نمائندہ بنا دیتی ہے، یعنی فرقِ مراتب کوئی شے نہیں۔ ہماری دینی روایت، جس کو بقول ہماری فاضل ناقدین ، جاوید صاحب سے خطرہ لاحق ہے چونکہ وہ اب (نعوذ باللہ) الحاد کے پروموٹر بن چُکے ہیں، میں سب سے بڑھ کر اگر کسی نصیحت کا اعادہ کیا گیا ہو گا یا وہ قدر جومسلم معاشرت کی نمائندہ رہی ہو گی وہ فرقِ مراتب ہے۔ اگر مراتب کا لحاظ آپ کے ہاں نہیں پایا جاتا تو  آپ بنیادی ترین انسانی قدر سے محروم ہیں۔

ہمارے اسلاف میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ اگر کسی سے علمی اختلاف ہوتا تو ببانگِ دہل کرتے  لیکن حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اپنے سے بڑے کے مؤقف کو بے رحمی سے  رد کرنا اور مکمل احترام سے  کرنا،  ہمارے اسلاف کی شان رہی ہے۔ جبکہ حالیہ تنقید پڑھ کر از حد حیرت ہوئی کہ یہاں فرقِ مراتب کو بے رحمی سے رد کیا گیا اور اور بڑے کی بات سمجھنا تک گوارا نہیں کی گئی۔

اب ہم ہمارے دوسرے فاضل ناقد جناب حسین احمد صاحب کے نقد کی جانب رُخ کرتے ہیں۔ حسین صاحب نے تہذیبوں کے زوال پر تبصرہ فرمایا ہے کہ جب بھی آتا ہے کُلی آتا ہے، جزوی نہیں۔ اور ہر ہر خلئے تک رسائی رکھتا ہے وغیرہ۔ تہذیبوں کے زوال اور اس کے اثرات کس  نوعیت کے ہوتے ہیں، سماجیات اور تاریخ کے وسیع مطالعے کے متقاضی ہیں اور راقم بد قسمتی سے دونوں سے مکمل نابلد ہے۔ لہذاٰ  تحریر کے اس  حصے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور حسین صاحب کی تحریر کےنسبتاً آسان جزو کا رُخ کرتے ہیں  جہاں وہ جاوید صاحب سے براہِ راست مخاطب ہیں۔

بادی النظر میں جناب  حسین احمد کا نقد اگرچہ کبیر علی صاحب  کی تحریر کے برعکس متین اور  علمی دکھائی دیتا ہے لیکن راقم کی رائے میں جناب  حسین احمد کے لگائے گئے الزامات کبیر علی کے مقابل کہیں زیادہ سنگین اور خطرناک ہیں۔ جہاں کبیر علی صاحب کی تحریر ایک نا سمجھ برخوردار کی زبان درازی اور ادیب بننے کے نئے نئے شوق میں کی گئی ایک تحریری مشق ہے وہاں  حسین احمد صاحب کی تحریر بظاہر ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی ۔  لہذاٰ ان کے لگائے گئے الزامات پر ہم نسبتاً زیادہ توجہ دیں گے۔

حُسنِ اتفاق سے ایک ہی تحریر میں  ہمیں دو  classical    examples ملی ہیں  جو اس امر پر دال ہیں کہ کس طرح  ایک ویڈیو کو  اُس کے سیاق و سباق سے توڑ کر من چاہے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں اور  نتیجتاً  آپ بڑے سے بڑے آدمی پر بھی سنگین ترین الزامات  لگا کر اُسے شرمندہ کر کے اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی واقعتاً اس امر میں دلچسپی رکھتا ہے کہ کسی ویڈیو کو بنیادبنا کر نقد کیسے کیا جاتا ہے تو اُستاذِ گرامی نادر انصاری صاحب کا مضمون  Apparatus   of   Oppression   and   the   Social   Unconsciousness  بہترین case   study ثابت ہو سکتا ہے۔

جناب حسین احمد صاحب کے لگائے گئے تین عدد سنگین ترین الزامات اُن کے اپنے ہی الفاظ میں کچھ یوں ہیں: ’’ وہ (یعنی جاوید صاحب) ’’ خدا کو نہ مان سکنا‘‘ ایسے  دین محمدی کی جڑ کاٹ دینے والے مواقف کا اظہار کر کے یہ حمایتی فعل انجام دے چکے ہیں۔‘‘، ’’جاوید صاحب نے ’’مذہبی طبقہ‘‘ جیسی یورپی اور ’’احتیاطی توبہ‘‘ ایسی خطرناک اصطلاح کا استعمال کیا ہے‘‘، ’’جاوید صاحب (نادانستہ ہی سہی، الحاد کی ترویج کے مرتکب ہو رہے ہیں)‘‘،’’اس متن کو مکمل پڑھنے کے بعد’’  مذہبی  طبقے‘‘  کے متعلق   صرف اور صرف نفرت کے جذبات ہی ابھرتے ہیں اور یہی اس متن کی سب سے بڑی معنویت ہے  اور خاکم بدہن اس کا مقصد بھی!‘‘

ان تینوں الزامات کا ہم ترتیب وار جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا الزام  جاوید صاحب کے ویڈیو کلپ  ’’خدا کو نہ مان سکنا‘‘ سے ماخوذ ہے جو کہ  حالیہ ویڈیو کلپ ہی کی طرح  سیاق و سباق سے کاٹ کرعوام میں مقبول ہوا اور ویڈیو جنریشن کے ہاتھ بلکہ ہتھے چڑھ گیا۔ گزارش ہے کہ جاوید صاحب کا الہیاٰت سے متعلق  مکمل لیکچر ہی اُن کی رائے قرار دیا جا سکتا ہے نہ کہ   وہ ویڈیو کلپ جس پر محترم حسین احمد صاحب نے جاوید صاحب پر امت محمدیہ کی جڑ کاٹ ڈالنے کا سنگین ترین الزام لگایا ہے۔آئیے اس الزام کا  جائزہ ڈاٹ پی کے پر جائزہ لیتے ہیں۔

سورۂ الاعراف آیۂ 172 میں عہدِ الست مذکور ہے ۔ پہلے اس آیت کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے بعد ازاس ترجمے کے سیاق میں راقم جاوید صاحب کے مؤقف پر اپنی رائے پیش کرے گا۔

ترجمہ: اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،‘‘ (172)

 

راقم کا تبصرہ: اس آیت کے مفہوم پر کم و بیش  پوری مسلم امت کا اجماع ہے کہ خداکا انکار ممکن نہیں ہے۔جو شخص بھی ان دو اوامر، یعنی خدا کی وحدانیت اور دنیا کے مخلوق ہونے کا انکار کرے گا، روزِ قیامت اُس کا کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا کیونکہ مسلم عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے یہ عہدلیا تھا اور پھر سب سے سوال کیا ’’الست بربکم‘‘ اور سب تمام انسانوں نے جواب دیا تھا ’’بلیٰ‘‘، ایمان بالغیب کی خاطر عہدِ الست کا یہ واقعہ ہماری یادداشت سے محو کیا گیا ہے لیکن خدا کو ماننا، یہ وہ علم ہے جو انسان کے پاس پیدائشی طور پر ہوتا ہے  اور کسی خارجی اطلاع کا محتاج نہیں ہوتا۔

جاوید صاحب کا مؤقف: راقم کے فہم کے مطابق محترم جناب احمد جاوید صاحب کا زیرِ بحث مؤقف، یا کوئی بھی دوسرا دینی مؤقف کبھی بھی روایت سے انحراف کرتا نہیں پایا گیا یا کم از کم راقم کے علم میں نہیں ہے، عہدِ الست سے متعلق بھی جاوید صاحب کا مؤقف ٹھوس روایتی ہے اور  راقم کے فہم کے مطابق کچھ یوں ہے: اس انکار کی گنجائش کسی شخص کے پاس نہیں ہے کہ وہ خدا  کی وحدانیت اور دنیا کے مخلوق ہونے کا انکار کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اصطلاحاً  atheist کہا جاتا ہے تو  روزِ قیامت اُس کا کوئی عُذر قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ جبکہ وہ خدا جو مسلمانوں کا خدا ہے، جس کی خوبیاں  اور تعلیمات ہمیں محمدِ عربی ﷺ کے توسط سے ملی ہیں، اُس کو نہ مان سکنے کا عُذر  قابلَ قبول ہو سکتا ہے۔ اور چونکہ وہ ایک اصلاحی نشست تھی جس میں یہ موضوع زیرِ بحث تھا  اسی وجہ سے اُس نشست کا meta   narrative بھی مسلم امت کی حالتِ زار پر نوحہ تھا جس میں جاوید صاحب یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ  آج کی مسلم امت کو دیکھ کر کسی کا اسلام قبول کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔

اس تناظر میں جاوید صاحب کا مؤقف  اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وہ کافی ٹھوس معلوم ہوتا ہے اور حسبِ حال بھی۔ لیکن یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے  کہ یہ جاوید صاحب کے مؤقف پر راقم کی understanding ہے لہذاٰ اسے جاوید صاحب کا مؤقف سمجھ کر ایک نئی campaign  شروع کرنے سے احتراز برتا جائے اور جاوید صاحب کی ’اصلاح‘ کے خواہاں اُن سے ملاقات کر کے انہیں چند اسباق پڑھا دیں لیکن گزارش یہ ہے کہ پہلے خود ضرور پڑھ کر جائیں۔ یہاں یہ مختصر تبصرہ اس وجہ سے ضروری تھا تاکہ جاوید صاحب کی ’’کاٹی ہوئی‘‘ جڑ کو فوری طور پر زمین میں دبا دیا جائے۔

اب ہم حسین احمدصاحب کے دوسرے الزام کی جانب بڑھتے ہیں  کہ جاوید صاحب الحاد کی ترویج  کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسی امر پر نقد کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں  کہ :’’(جاوید صاحب) پہلے بھی اس طرح کی شکایت کر چکے ہیں کہ علما میں رد الحاد کے لیے بڑی سطح کا عالم پیدا نہیں ہوا۔‘‘، ’’ہماری گزارش ہے کہ کیا الحاد کی کوئی علمی سطح بھی معلوم ہے علم کی دنیا میں ؟ کہ مطالبہ کیا جائے کہ ہمیں اس سطح کا جواب بھی چاہیے۔‘‘

راقم الحاد پر ہمارے فاضل دوست کے نقد کو کچھ اس طرح سے دیکھتا ہے کہ یقیناً   ایمانی سطح پر اللہ تعالیٰ پر یقین ہمارے لئے بدیہی ہے اور  ہمیں اس گہری دانش پر مبنی ہدایت سے بھی اللہ کے نبی ﷺ نے نوازا ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ پر سوالات اٹھانے سے احتراز کیا جائے کہ یہ ایمان کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔لیکن جاوید صاحب کی ردِ الحاد سے متعلق جو   فکر مندی ہے وہ راقم کی نظر میں مسلم امت کی سب سے بڑی فکر مندی ہونی چاہئے اور اس امر پر از حد افسوس ہے کہ اس بدیہی خطرے کوہمارے علماء کے طبقے میں مطلوبہ توجہ حاصل نہیں ہے ۔ الحاد نہ صرف مغرب میں تیزی سے پھیل رہا ہے بلکہ اس تناور درخت نے ہماری نوجوان نسل کو امر بیل کی طرح  اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم میں سے کتنےدینی علماء سے ہمارے فاضل ناقد واقف ہیں جو ڈاکٹر علی سینا اور ابنِ وراق کےنقد تو درکنار اُن کے ناموں تک سے واقفیت رکھتے ہوں۔اور یہ دو نام الحاد کے روحِ رواں ہیں اور اسلام دشمنی کے frontrunner ہیں۔ہمارے فاضل ناقدمزید فرماتے ہیں۔،’’آخر مغرب نے ایسا کون سا بڑا ملحد پیدا کیا ہے کہ جسے مغرب خود بھی اپنے الحاد کا نمائندہ کہہ سکے؟‘‘۔ اس  پر ہمارے فاضل ناقد سےدرخواست ہے کہ وہ ڈیوڈ ہیوم (   David Hume)  اور لیوڈ وِگ فوئر باک  (Ludwig   Feuerbach) کا کام  ملاحظہ فرمائیں۔ ان دو حضرات کے کام کو Atheism کی foundation کہا جاتا ہے۔

گزارش ہے کہ آج کا پڑھا لکھا نوجوان اگر آپ کے پاس  وجودِ باری تعالیٰ سے متعلق کوئی سوال لے کر آتا ہے تو اُسے آپ عہدِ الست کا دم کر کے واپس نہیں بھیج سکتے۔راقم  احمد جاوید صاحب کی ہی ایک کلاس  میں بطور سامع  کے بیٹھا تھا جہاں انہوں نے  ایک صاحب (جو کہ عالم ہی تھے) کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ’’ آپ مجھے جدید علماء میں سے کوئی ایک بھی عالم ایسا بتا سکتے ہیں  جو Atheism پر سوالات کے standard جوابات جانتا ہو؟ اگر نہیں جانتا تو یہ فکر مندی کی بات ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی غزالی کی ضرورت ہے ،آج بھی ہمیں رازی کی مدد چاہئے۔‘‘۔ عرض ہے کہ جذباتی الزام تراشی سے ہمارے ہاتھ کُچھ نہیں آنے والا۔ ہمارے علماء کو یقیناً ادب، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سماجیات ایسے ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا اگر ہم مغرب کے مقابل کوئی پوزیشن لینا چاہتے ہیں۔

یہاں ہمارے متن پرست دوستوں سے گزارش ہے کہ جاوید صاحب کی یہاں مراد یہ یقیناً نہیں ہے کہ وہ تمام علماء سے ملاقات کر کے سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ Atheism کے standard جوابات کوئی عالم نہیں جانتا، بلکہ انہوں نے ایک عمومی روش بیان کی ہے کہ  ہمارے علماء کی غالب اکثریت مغرب کے اٹھائے گئے سوالات اور پھر انگریزی زبان کے barrier کی وجہ سے مغرب کو confront کرنے کی پوزیشن میں بالعموم  نہیں پائی جاتی۔ اور اگر  احباب اس گزارش سے متفق ہیں تو کم و بیش یہی بات جاوید صاحب نے علماء کے عمومی رویے سے متعلق کی ہے۔ جس کو لے کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ اور اگر ہمارے دوست حسین احمد صاحب کی نظر میں واقعی جاوید صاحب کی تحریر علمائے کرام کا امیج خراب کرنے کی (معاذاللہ) ایک ارادی کوشش تھی تو گزارش یہ ہے کہ  علمائے کرام  کا عمومی اخلاق اگر اس نقد کے برعکس ہے تو  ہزار ہا علماء کی خوش خُلقی خود ہی ایک زندہ دلیل ہو گی جس کے مقابل جاوید صاحب کا نقد بے معنی ہو گا اور اگر  جاوید صاحب کا نقد کُچھ وزن رکھتا ہے تو من حیث المجموع ہمیں اس حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ کبھی بھی ایک آدمی، وہ جتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، کی بتائی گئی تنقید ایک زندہ حقیقت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اگر جاوید صاحب مجھے کہیں کہ زید بد اخلاق ہے اور زید سے ملاقات میں اُس کا اخلاق جاوید صاحب کی اطلاع کے برعکس ہو،  تو جاوید صاحب کی شخصیت کا قد مجھے زید کو خوش خُلق ماننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔اب اگر ہمارے فاضل دوست یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دورِ حاضر کے علمائے کرام  کا اخلاق ہمیں اسلاف کی یاد دلا دیتا ہے اورجاویدصاحب اس امیج کو خراب کرنا چاہ رہے ہیں تو یہ بلا وجہ رائی کا پہاڑ بنانے کے مترادف ہے۔جاوید صاحب کی تنقید خوش اخلاق لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لیکن اگر اُن کے نوحہ کو ایک درد مند دل، ایک فکر مند مسلمان، اور امت کے نمائندہ بزرگ کی  حیثیت سے دیکھا جائے تو یقیناً ہم فکر مند ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ ہمیں اپنی اخلاقیات پر از سرِ نو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور علماء کی علی الاطلاق مذمت کو اگر آپ  واقعتاً ایک جدید فکر کے آگے سپر ڈالتے ہوئے متن کے پجاریوں کی طرح   جاوید صاحب کی  بات  کو لفظی معنیٰ پہنانے کی کوشش کریں گے  تو اس کا مطلب سوائے بہتان تراشی کے کچھ نہیں کہ متن پرست کا واحد مقصد ارادی معانی نکالنا ہوتا ہے نہ کہ متکلم کی مراد تک پہنچنا۔

حسین صاحب کے اسی نقد کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض ہے کہ یقیناً متن پرستی دورِ حاضر ہی کی وباؤں میں سے ایک ہے اور اس وبا کے شجرۂ نسب  کا اگر راقم ذکر کر بیٹھا تویہ آ بیل مجھے مار کے مترادف ہو گا، لہذاٰ تولیدی سند کا ذکر حذف کرتے ہوئے عرض ہے کہ جاوید صاحب کے  الفاظ کو متن پرستانہ معانی پہنا کر  لفظِ ’’مذہبی طبقہ‘‘ کو یورپی اصطلاح قرار دیا گیا ہے  اور ’’احتیاطی توبہ‘‘ کو خطرناک کہا گیا ہے۔ یقین کیجئے اتنی دور کی لائی ہوئی کوڑیاں اگر اکٹھی کر کے فروخت کی جائیں تو قوم کا سارا قرض اتر سکتا ہے۔ یقیناً ایسا ہم سب کے تجربے میں ہو گا کہ نا دانستہ ہم کسی کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں اور ہمیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ یہی جاوید صاحب نے کیا، اقرار فرمایا کہ میری نیت کسی کی دل آزاری کی نہیں تھی لیکن اس کے باوصف لوگوں کو رنج پہنچا، جس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں اور اللہ پاک سے توبہ کا طلبگار ہوں۔ ہماری یہی دُعا ہے کہ جن لوگوں کی جاوید صاحب نے دل آزاری کی  ، اُس دل آزاری پر اللہ جاوید صاحب کو معاف فرمائے اور اُن کی توبہ کو قبول فرمائے۔

آخر میں  راقم تین گزارشات اور ایک اعتراف کرنا چاہے گا ۔ گزارش اپنے تمام نوجوان احباب سے ہے کہ معاشرتی  سطح پر کوئی بھی   رویہ اختیار کرتے ہوئے ہمیں بزرگوں کے conduct کو ضرور سامنے رکھنا چاہئے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ   جاوید صاحب کے اس  معذرت نامے پر اگر اُن کے ہم عمر و ہم عصر بزرگان خاموش ہیں تو ہمیں بھی اُن کی پیروی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ نہ ہم بزرگان کی سطح ایسی دانش رکھتے ہیں  نہ ہی علم۔ہمارے بزرگان کا رویہ بہت سی حکمتیں اپنے اندر سموئے ہوتا ہے  لہذاٰ اُن کی پیروی ہمیں ایک بہتر اخلاقی پوزیشن پر رکھے گی۔ دوسری گزارش ویڈیو Cutter کے بے دریغ استعمال سے احتراز کی ہے کہ یہ ایک بہت ہی خطرناک اور مہلک ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ کوشش کرنی چاہیے اُس  موضوع پر ہاتھ ڈالا جائے جس میں ہم کم از کم مبتدیانہ گرفت رکھتے ہوں، یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کا ارتکاب ہمارے دونوں  دوستوں سے بیک وقت ہوا۔

اور اس اعتراف کے ساتھ راقم اجازت چاہے گا کہ یہ تحریر اپنے دونوں احباب عزیزم کبیر علی اور عزیزم حسین احمد کو ایک برادرانہ سرزنش ہے   اس سے بڑھ کر کُچھ نہیں۔اور امید ہے اس نقد، سرزنش کو وہ فراخ دلی سے قبول فرمائیں گے ورنہ اقبال تو کہہ ہی گئے تھے کہ

چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

 

پسِ نوشت: اگر جائزہ ڈاٹ پی کےاپنےاس دعویٰ ’’جائزہ ہمارے ماضی کی بازیافت،  حال کی پڑتال، اور مستقبل کی کاشت کی ایک ادبی کاوش کا نام ہے‘‘، میں ذرہ برابر بھی دیانت دار ہے تو مدیرِ اعلیٰ سے دست بستہ گزارش ہے کہ ازراہِ شفقت  مستقبل میں اپنی ویب گاہ کو  ایسی سُخن گستری سے محفوظ رکھے جو ایک ایسے مستقبل کی کاشت پر منتج ہو جو اس کے ماضی اور حال، دونوں سے اجنبی ہو۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search