سائنس کس طرح کام کرتی ہے؟ اطہر وقار عظیم

 In تاثرات

عصر حاضر میں ہر ذی روح اور ہر ذی شعورانسان،سائنس اور سائنسی علمیت سے بلا واسطہ یا بالواسطہ مثبت اور منفی مفہوم میں متاثر ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اظہر من الشمس ہے، اس لیے ہم سائنس سے چاہت رکھیں یا پھر سائنسی معیارات اور نتائج کو اپنے لئے چیلنج سمجھیں، یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ سائنس اور سائنسی علمیت سے جڑے کسی بھی عامل کو نہ تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کسی ہیئت کو مسترد کیا جا سکتا ہے، گویا یہ ایک ایسا سحر ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے اور اب بھی بول رہا ہے۔ تو پھر ایسا عامل جو ہماری زندگیوں کو چار و ناچار متاثر کر رہا ہو تو ہمیں یہ جاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے کہ حقیقت میں سائنس یا سائنسی علمیت سے مراد کیا ہے؟ اور مستند علمی حلقے سائنس اور سائنسی علمیت سے مراد کیا لیتے ہیں؟ اس لیے سائنس کے حوالے سے کوئی بھی مثبت یا منفی تعصب اپنانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم سائنس کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کریں، لیکن کیا ایسا کرنا ممکن بھی ہے؟  کیا سائنس کی دو اور دو چار کی طرح سادہ انداز سے تعریف کی جا سکتی ہے؟ اگر ایمانداری کے ساتھ بات کی جائے تو سادہ الفاظ میں سائنس کی تعریف نہیں کی جا سکتی، ایسے سادہ الفاظ جس میں سائنسی اصطلاح کے تمام خواص، کرداری خصوصیات اور ضروری لوازم موجود ہوں، یعنی ایسی سادہ تعریف، جن میں ان تمام اشیاء، عوامل، مظاہر اور سرگرمیوں کو دوسروں سے علیحدہ کیا جا سکے، جنھیں کبھی ’’سائنس‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح کیا سائنسی علمیت کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے، کیا سائنس سے مراد عقلی استدلال اور مشاہداتی و تجربی طریقہ کار سے طبیعی اشیاء یا فطری مظاہرکا مطالعہ کرنا ہے؟  کیا سائنس کرنے سے مراد، کسی مسئلے یا چیلنج کا ایسا حل تلاش کرنا ہے جو دنیا بھر میں مستعمل اور قابل اطلاق ہو جائے اور مذکورہ درپیش مسئلے کے ضمن میں افادیاتی نتائج مہیا کرے، جیسا کہ عام طور پر سائنسی ایجادات اور انکشافات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے،  یا پھر سائنس سے مراد، سادہ طور پر ہر وہ کام ہے، جو مستند سائنس دان سرانجام دیتے ہیں۔

ہم جب جب سائنس کو مزید قریب سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان علمیاتی خصوصیات کو تلاش کریں جو اپنی مستند اور معتبر حالت میں سائنس کی مختلف کرداری خصائل اور اظہاری صورتوں میں جلوہ گر ہیں۔ کیونکہ یہ ایسا کلیہ ہے جو ہمیں کسی قدر اطمینان بخش تعریف اور حقیقی نتائج سے قریب لا سکتا ہے۔ اگر سائنس کے حوالے سے اس قدرِ مشترک کی بات کی جائے تو وہ بلاشبہ سائنٹفک میتھڈ یا سائنسی میتھاڈالوجی ہے جو ہر سائنسی علمیت کی ساخت اور اظہاریئے کا معتبر حصہ اور گویا جزوِ لاینفک ہے۔ اگر ہم سائنسی میتھاڈالوجی یا سائٹفک میٹھڈ کو مستند حالت میں سمجھ لیں تو ہم کسی قدر سائنسی علمیت اور فروغ سائنس کے حوالے سے اپنی سمت درست کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ دراصل سائٹفک میٹھڈ کی بڑھوتری اور نمو کا سفر ہزاروں سالوں پر محیط ہے جو کہ باکمال، سنجیدہ، محنتی، عقلی استدلال اور حسی مشاہدات اور تجربات سے والہانہ محبت اور صبر آزما حوصلے اور مشقت کا نتیجہ ہے۔ سائنسی طریقہ کار ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے انسانی آراء اور یقین کے درجے پر پہنچے ہوئے اعتقادات میں سے توہم پرستی، فلاسفک موشگافیوں اور مذہبی اعتقادات کو علیحدہ کیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کوئی ایسا مظہر، تصور، نظریہ یا اعتقاد جو سائنس یا سائنسی علمیت کے مستند اور معتبر سانچے میں نہیں گزرتا تو وہ لازماً غلط (fake)  یا (pseudo) سائنس ہی ہے۔ ایسا بے اصل دعوٰی کرنا جہاں علمی بددیانتی ہے وہاں غلو اور متشددانہ رویہ بھی ہے، جس سے نہ صرف مذہبی علمیت سے جڑے اعتقادات پر سے عوام کا اعتماد کم ہوتا ہے بلکہ اس سائنس پرستانہ رویے کی وجہ سے سے خود سائنسی میتھاڈالوجی اور سائنٹفک میتھڈ میں مزید بہتری ہونے کی راہ بھی مسدود ہوتی ہے۔ سائنسی علمیت کے ساتھ تو صرف اتنا دعوٰی کیا جا سکتا ہے کہ فلاں دعوی یا فلاں استدلال غیر سائنسی ہے، یعنی ان معاملات میں تصور حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک مختلف علمیت Epistemology اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سائنسی مہمات میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ ایسے عوامل اور سرگرمیاں  بیان کی گئیں جو سائنس اور غیر سائنس کی حدود پر پائی جاتیں ہیں مثلاً فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریات وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم عام معاملات و واقعات میں سائنس اور غیر سائنس میں تمیز نہ کر سکیں، مثلاً طبیعیات اور کیمیا بلاشبہ سائنسز ہیں اور ہم مختلف تجربات اور مشاہدات کے ذریعے مختلف کیمیاوی اور طبیعی قوانین کو منکشف کر سکتے ہیں۔

چنانچہ سائنس کی تعریف کرنے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو ہم اس کے سب سے اہم حصے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، بلاشبہ سائٹفک میٹھڈ، سائنس کی تعریف اور فہم کا اہم حصہ ہے۔ جس میں طبیعی سطح پر (یعنی اس مادی کائنات میں) حسی مشاہدہ یا قابل دید اشیاء کی طرف متوجہ ہوا جاتا ہے، کیونکہ سائنس اپنی معتبر اور معیاری حالت میں ان اشیاء کی طرف متوجہ ہو گی، اگرچہ سائنس اپنی معیاری حالت میں ان اشیاء کا بھی مطالعہ اور تجزیہ کرتی ہے جو ہمیں عام آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں، مثلاً الیکٹران اور انسانی جینز (جینیات) کا مطالعہ وغیرہ، لیکن یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ اس غیر مرئی حالت میں بھی، یہ اشیاء حسی و طبیعی جہاں کے دائرہ عمل کے اندر رہتی ہیں۔

 

سائنسی وضاحت کرنے سے مراد کیا ہے؟

لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ سائنسی میتھاڈالوجی یاسائٹفک میٹھڈ اس طرح سے پروسیس ہونے پر خود کو مجبور پاتی ہے؟؟ اگر ہم سائنٹفک میتھڈ کے استعمال کی کم از کم دس ہزار سالہ معلوم تاریخ کا جائزہ لیں، اور اسے تنقیدی ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں تو ایک حقیقت  ابھر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ سائٹفک میٹھڈ اپنے طریقہ کار میں نمو کے ساتھ ساتھ، اس طبیعی اور مادی سطح پر نظم اور ترتیب و تناسب کو تلاش یا دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیونکہ سائنس اس مفروضے(precondition) کو مان کر آگے بڑھتی ہے کہ اس فطری کائنات اور فطری مظاہر میں کوئی ایسا نظم (order)اور ترتیب موجود ہے جس کو کھوجا جا سکتا ہے یا پھر دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ سوال بالکل الگ ہے کہ یہ نظم یا ترتیب، اندھی قوتوں کے تعامل اور ارتقاء کا نتیجہ ہے یا پھر ایک انتہائی حکیم خالق کی کاریگری ہے۔ بلاشبہ ہمارا ایمانی اعتقاد یہی ہے کہ حق تعالٰی نے اس کائنات میں طبیعی سطح پر بھی تمام فطری مظاہر کو تھاما ہوا ہے اور برقرار رکھا ہوا ہے، چنانچہ اس سوال کا جواب دینا شاید سائنس کے ذمے نہیں ہے، بلکہ اس سوال کا جواب اعتقاد اور عقیدے کے ساتھ ہے، اس لیے اس حوا لے  سے علمی میدان سائنسی تجربہ گاہیں نہیں ہیں بلکہ مذہب، دینیات، علم الکلام اور فلسفہ ہے۔ ہمیں سائنس پر وہ بوجھ نہیں لادنا چاہیے، جسے اٹھانے کی یہ اہلیت نہیں رکھتی۔ بہرحال بحیثیت مسلمان، سائنس کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ سائنس، جو سائٹفک میٹھڈ، مشاہدات اور تجربات کے ذریعے اور انکے نتیجے میں فطرت کے طبیعی خواص اور طبیعی مظاہر کی حسی و مادی سطح پر موجود نظم اور ترتیب کی دریافت اور وضاحت کرتی ہے، اور انہیں اپنی  خاص علمیاتی زبانوں (ریاضی، طبیعیات، حیاتیات اور کیمیا وغیرہ)  میں بیان کرتی ہے یا بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ ہرگز ہرگز حتمی نہیں ہے، کیونکہ یہ انسانی مشاہدے اور تجربے سے حاصل شدہ معلومات اور علم پر مبنی ہے نہ کہ وحی الہیہ اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حاصل شدہ قطعی علم پر۔ پس سائنس یا سائٹفک میٹھڈ ایسی غیر منقسم فطری اور قدرتی باقاعدگیوں اور نظم کی تلاش میں سرگرداں ہے، جنہیں مستند حیثیت کے ساتھ قوانین یا قوانین فطرت کہا جاتا ہے، اس مادی دنیا میں مختلف اشیاء طے شدہ راستوں کی پیروی کرتیں ہیں، سائنس مختلف سائنسی تصورات اور سائنسی تناظرات کے ذریعے سے ان کی پیروی کے ذریعے، ان خواص، مظاہر اور سرگرمیوں کی نمونہ جاتی درجہ بندی کرنے کا نام ہے، جنہیں سائنسی حقائق اور قوانین بھی کہا جاتا ہے، جیسا نیوٹن عہد میں قانون تجاذب یا کشش ثقل کا قانون، یا حرکت کے تین قوانین یا پھر سیاروں کی حرکت کا قانون جو کیپلر نے دریافت کیا، یا پھر جینیاتی(Genes) کا قانون وغیرہ وغیرہ…

لیکن جب ہم ان سائنسی تجزیوں یا تفہیماتی تناظرات سے کسی فلاسفک سائنسی تعبیر کی طرف رخ کرتے ہیں تو پھر ہمیں ان مشاہداتی اور تجرباتی قوانین میں کشش محسوس نہیں ہوتی، افلاطون کا قانون ہیئت ہمیں اس دنیا سے متعلقہ نظر آتا ہے، اسی طرح مذہبی اعتقادات جو طبیعی قوانین سے ماوراء، ایسے حقائق کی طرف ہماری توجہ مرکوز کرواتے ہیں، جو کہ عالم غیب سے جڑے، مابعد الطبیعیاتی معاملات سے متعلقہ ہیں، مثلاً علم الغیب، آخرت اور معجزات وغیرہ، ایسے تمام حقائق، سائنسی علمیت یا سائنسی میتھاڈالوجی کے مستند دائرہ کار سے ماوراء ہیں، لیکن علمیتوں کی الگ الگ حدود متعین کرنے سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ نعوذبااللہ  مذہبی علمیت ناقص، خام یا غلط ہے، اس کے بجائے اس کاسادہ سا مطلب یہ ہے کہ مذہبی علمیت اپنے مفہوماتی تناظر اور Epistemology میں سائنسی علم سے مختلف ہے۔ مذہبی علمیت کی بنیاد وحی الہیہ اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حاصل شدہ علم ہے جو اپنی حقیقت میں قطعی اور حتمی ہے اور غیر مبدل ہے، اگرچہ دینی علمیت میں پختہ کار افراد یعنی دینی علماء، عقلی استدلال، قوت واہمہ اور متخیلہ کے ذریعے، مذہبی علمیت سے جڑی معلومات اور علم کی تشریح و توضیح کرنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ مذہبی علمیت کو ہر زمانے اور  عہد میں تمام انسانی معاشروں میں رہنے والے افراد (مسلمانوں) کے لیے متعلقہ بنایا جا سکے لیکن یہ دین کے قطعی احکامات کی فطری extension ہے، نہ کہ کسی تجدد پرستانہ جوش کے تحت دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سیکولرلائز کرنے کی کوشش کرنا۔

اس کے برعکس سائنسی علمیت یا سائٹفک میٹھڈ کے ذریعے، تعقل انسانی اور مشاہدات اور تجربات کے ذریعے، فطری عوامل اور مظاہر میں قوانین قدرت کے بروئے کار رہنے اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے، مثلاً وہ چیزیں درحقیقت کیسی ہیں جو ہمیں حواس خمسہ کے ذریعے نظر آتی ہے یا محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً اشیاء زمین کی طرف کیسے گرتیں ہیں جیسے توپ کا گولہ شلجمی شکل parabola سمت میں ہی کیوں حرکت کرتا ہے؟ اور یہ دائروی حرکت کے ساتھ کیوں نہیں گرتا؟ نیلی آنکھوں والے والدین کے بچوں کی آنکھیں نیلی کیوں ہوتیں ہیں؟  دراصل یہ سب قوانین قدرت ہیں، جن کی عملداری ہر لحظہ جاری و ساری رہتی ہے، کیونکہ توپ کے گولے کی مخصوص سمت میں حرکت کسی طبیعی قانون کے تحت ہے، اس طرح آنکھوں کی نیلی رنگت بھی مینڈل کے جینیاتی قوانین کی پابندی کے تحت ہے۔ اس لیے سائنسی وضاحت جب بھی کی جاتی ہے، اس میں اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ وضاحت طبیعی قوانین کے ذریعے عملی و حسی دنیا میں وقوع پذیر ہو رہی ہے لہذا وہی چیز قابل وضاحت بھی ہے، یہاں سائنسی وضاحتوں کے مختلف خدوخال کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

 

پیشن گوئی کرنا

سائنسی وضاحت کی ماحصل پیش گوئی یا prediction کرنا بھی ہے اور اس  سے مراد یہ ظاہر بھی کرنا ہوتا ہے کہ زمان و مکان سے ماورا، کیا ہوسکتا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ یعنی مستقبل میں امکان غالب یہی ہے کہ توپ کا گولہ parabolaہی گرے گا۔ نیلی آنکھوں والے والدین کے بچوں کی آنکھیں بھی بیشتر صورتحال میں نیلی ہی رہیں گی اور اگر کسی مقام پر کوئی فرق بھی آئے گا تو اس کی بھی جینیاتی و سائنسی وضاحت ممکن ہو سکے گی اور اگر کوئی فطری مظہر ماضی میں جس انداز سے وقوع پذیر ہوتا رہا ہے، تو اسے طبیعی سطح پر،سائنسی وضاحتوں کے ذریعے سمجھا جا سکے گا، مثلاً ماضی میں جب سورج گرہن لگا ہو گا تو اس کی وضاحت بھی سائنسی قوانین اور مظاہر کی تفہیم کے ذریعے کی جائے گی، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اس سائنسی تفہیم کو شعوری یا لاشعوری طور پر کسی ملحدانہ تعبیر کے ساتھ منسلک کر دیں۔ طبیعی مظاہر کی مذہبی یا غیر مذہبی تعبیر، اس سائنسی تفہیم سے علیحدہ معاملہ ہے جو ہم مستند سائٹفک میٹھڈ یا طریقہ کار کو استعمال کر کے حاصل کرتے ہیں، اس لیے(نیوٹرل) سائنسی تفہیم اور تعصب زدہ سائنسی تعبیر میں امتیاز قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ ہم ملحدانہ تعبیرات کو اپنالیں گے اور سائنس ازم یا سائنس پرستی کا شکار ہو جائیں گے۔

 

جانچنے کی صلاحیت

وضاحت کرنے اور پیشن گوئی کرنے کی صلاحیت اور خاصیت کے ساتھ سائنسی میتھاڈالوجی کا ایک کام جانچنے اور test کرنے کی صلاحیت بھی ہے، کیونکہ مستند سائنسی نظریہ، جانچ پڑتال اور محاسبے کے لیے، حقیقی دنیا کے سامنے خود کو پیش کر دیتا ہے، جس پر سائنس دان اس امر کی جانچ کرتے ہیں کہ کیا مذکورہ بالا سائنسی وضاحت اور پیشن گوئی حقیقتاً فطرت یا قدرت سے ہی حاصل کی گئی ہے، کیا مذکورہ عامل مثلاً کیمیائی مواد کا ردعمل ویسا ہی ہے جیسا کہ جانچا گیا ہے اور کسی سائنسی یا ریاضیاتی مساوات کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے مثلاً ڈبل سلٹ سائنسی تجربے میں کالی اور سفید پٹیاں اُسی طرح لہراتی نظریے کو سامنے لاتیں ہیں جیسا کہ الیکٹران کے ذرات سے جڑے اس تجربے میں دکھایا گیا ہے؟ کیا براعظموں میں موجود زمینی خواص اس چیز کی وضاحت کرتے ہیں کہ براعظم پہلے ملے ہوئے تھے اور واقعتاً ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے؟

جانچ یا تصدیق کا یہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے یا یہ دو طرفہ سرگرمی ہے یا تحقیق کرنے والا محقق کسی مثبت تصدیقی ثبوت کی طرف دیکھتے ہیں یا تلاش کرتے ہیں تا کہ تصدیق ممکن ہو سکے اور جب تک یہ تصدیق تجربات کے ذریعے سے مستحکم اور محکم طریقے سے حاصل نہ کر لی جائے تب تک کوئی بھی اس سائنسی نظریے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، یہی وجہ ہے کہ ایک نسبتاً نئے سائنسی نظریے کو پرانے قائم شدہ نظریے کے مقابلے میں کم مستند سمجھا جاتا ہے۔

جانچ یا تصدیق کے سائنسی عمل سے مراد یہ بھی ہے کہ اسے falsity یا علمی طریقے سے غلط ثابت کیاجاسکے، اس سے مراد یہ ہے مذکورہ بالا،سائنسی وضاحت کو کسی بھی ممکن (حسی و طبیعی سطح پر ممکن) طریقے سے رد کیا جا سکے یا غلط ثابت کیا جا سکے یا پھر انہی اصولوں کے تحت وہ غلط ثابت نہ کیا جا سکے اور درست اور ٹھیک سمجھا جائے، تو مذہبی اعتقادات یا عالم غیب سے جڑے معاملات سائنسی وضاحت کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے۔ سائنسدان کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اپنے تئیں معاشرے میں موجو د  ملحدانہ  رو  کے تحت، سائنسی تفہیم پر الحاد کا  ریپر چڑھائے اور سائنسی نتائج اور تفہیمات کی ایسی تعبیرات کرے جو لادینیت پر مبنی ہوں یاالحاد کو فروغ دیتی ہوں۔

 

مسلسل نمو اور بہتری کی گنجائش

سائنسی نتائج، چونکہ انسانی مشاہدات اور تجربات سے حاصل شدہ معلومات سے اخذ شدہ ہیں، اگرچہ سائنسی نتائج قابل اعتماد اور مستند سائٹفک میٹھڈ کے بہترین استعمال کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں اور ان کی جانچ، پرکھ اور تصدیق، یکساں طور پر ہر جگہ اور ہر وقت کی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی سائنسی علم قطعی اور حتمی نہیں ہے اور نہ ہی سائنسی نتائج حتمی ہیں، اس لیے زیادہ بہتر سائنسی وضاحت پر مبنی تھیوری، پہلے سے موجود تھیوری کی جگہ لے لیتی ہے۔ مثلاً سائنسدانوں کا گروہ، تصدیقی مراحل میں کمزور رہنے والے سائنسی نظریات کو مسترد کر دیتے ہیں،اور تصدیق کے لیے مزید ثبوت اکٹھے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نظریے کو مزید review اور refine کیا جاتا ہے۔ مثلاً گزشتہ تیس سالوں میں ماہر ارضیات  کہتے تھے  کہ براعظموں نے کبھی جنبش نہیں کی، لیکن سائنس دان اپنے طور پر ذہن تبدیل نہیں کرتے، بلکہ مزید معتبر تجربی تصدیق کے بعد اپنا موقف تبدیل کر تے ہیں۔ اس معاملے میں سائنس دان، متکلمین اور فلیسوف سے الگ راہ اختیار کرتے ہیں، مثلاً کانٹ جو کہ فلسفی تھا اس کے سوچنے کا انداز، آئن سٹائین کے سوچنے کے انداز سے مختلف تھا،کیونکہ کوئی تجربی ثبوت کانٹ کے ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ سائنسی علمیت، کسی فلسفے یا مذہبی علمیت سے علیحدہ چیز ہے، اور سائنس کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہمیں نہ تو دھوکہ دہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کرنے کی ضرورت ہے، سائنس کا رد صرف اس سے اور زیادہ بہتر سائنس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search