قصیدۂ صحافت: بیادِناسخؔ ۔ تحریر: ذوالنورین سرور

 In تاثرات

سیاست ایک بڑا اہم اور سنجیدہ موضوع ہے۔ ہمارے ہاں اس موضوع میں زیادہ تر مواد صحافت کا پیدا کردہ ہے ۔ اس وجہ سے اس کی نوعیت انتہائی پست ہے ۔ یہ بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ پیشہ ورانہ صحافت میں کچھ ایسی بدیہی خرابی ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی معنی خیز بات کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ بیرونی ممالک میں اس واسطے پڑھے لکھے اصحاب کو میڈیا پر مدعو کیا جاتا ہے۔ صحافتی شعبے سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باعث ان کے اوپر اپنے مداحوں اور روایتی گروہوں کا نسبتاً کم اثر ہوتا ہے ۔ مثلاً چومسکی کو امریکی صدارتی امیدواران پر بات کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے،یا زیزیک کو بریگزٹ اور امیگریشن ایسے موضوعات پہ گفتگو کے لیے یاد کیا جاتا ہے یا پھر جب نسیم طالب کو ٹرمپ اور امریکہ کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے دعوت دی جاتی ہے تو اس سے موضوع میں ایک رفعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ نا صرف یہ کہ ایسی کوئی صورتحال موجود نہیں ہے بلکہ اس ضرورت کا ادراک بھی کسی سطح پر موجود نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست پچھلی دہائی میں بہت ریڈیکل تبدیلیوں سے گزری ہے ۔ ان میں سے تین اہم تبدیلیاں درج ذیل ہیں:
1: تشدد میں کمی
2: جدید ٹیکنالوجی
3: سوشل میڈیا کی آمد
ان تینوں تبدیلیوں نے ہمارے نئے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دیا ہے ۔

1۔ تشدد میں کمی:

اس وقت آپ (بلوچستان کے سوا) ملک کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کر سکتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں نہ تو آپ کے کاروبار کو کوئی خطرہ لاحق ہے اور نہ ہی زندگی کو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی تبدیلی ہے ۔ اس کی وجہ سے بھانت بھانت کی سیاسی آراء سامنے آ رہی ہیں ۔
تشدد میں کمی سے مراد ہے آرگنائزیشنل انداز کے پر تشدد طرز سیاست میں تبدیلی یا ایسی تنظیموں پر پابندی کا لگایا جانا۔ یعنی سیاسی جماعتوں نے اپنا طرز سیاست بدلا اور اگر وہ اس کی اہل نہ تھیں تو کالعدم قرار دے دی گئیں۔ ان تنظیموں کے ہاں تشدد کی نوعیت ذاتی نہیں تھی بلکہ سٹریٹجک تھی ۔ کسی آدمی کو ذاتی مخاصمت کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کے قتل سے کسی علاقے کی سیاست کو اپنی مٹھی میں کرنا اصل مقصد ہوتا تھا ۔ اس قتل کی اجازت باقاعدہ بالائی قیادت سے ملتی تھی ۔ قاتلوں کو تحفظ بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ اس قتل میں یہ بات مضمر تھی کہ اگر اِس آدمی کی بجائے کوئی اور آدمی سیاسی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوتا تو اُسےبھی قتل کر دیا جاتا ۔ یہ قتل ایک واضح پیغام کی حیثیت بھی رکھتا تھا کہ کوئی آدمی دوبارہ ایسی غلطی کا مرتکب نہ ہو ۔ اس میں زبان ، فرقہ یا برادری وغیرہ کا تذکرہ فقط زیب داستان کے لئے تھا ۔ یعنی اصل جھگڑا مفادات کا تھا اور تشدد محض انھیں حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا ۔ اس قسم کی سیاست کرنے والے تمام گروہ نابود کر دئیے گئے ۔ تاہم چند سیاسی تنظیمیں ایسی ہیں جو اس قسم کی طرز سیاست سے جان چھڑا کر کالعدم ہوئے بغیر اپنا دامن بچا کر نکلنے میں کامیاب رہیں ۔گویا اس وقت سیاسی منظرنامے میں کوئی ایسا سیاسی گروہ برسرپیکار نہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں میں تنظیمی سطح پر ملوث ہو ۔ انفرادی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ان کا باقاعدہ تنظیمی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ۔

تشدد میں کمی اور جدید ٹیکنالوجی کی سہولتوں کے آجانے سے ہمارے ہاں سیاسی گفتگو کی سطح بلند ہوجانی چاہیے تھی مگر افسوس ایسا ہو نہیں سکا۔

2۔جدید ٹیکنالوجی:

جدید ٹیکنالوجی نے تحقیق کو بہت سہل کر دیا ہے۔ اگر آپ کے پاس ایک خیال ہے اور آپ ذرا سی مشقت کریں تو مطلوبہ اعداد و شمار یا حقائق بآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک عام آدمی کے لئے بھی اپنی رائے کو مزین کرنا بہت آسان ہو گیا ہے ۔ان دونوں عناصر یعنی تشدد میں کمی اور تحقیق میں سہولت کے سبب ہونا یہ چاہیے تھا کہ معاشرے کے ذہین لوگوں کو اپنی آراء بہتر بنانے کا موقع ملتا جس سے معاشرے کی فکری سطح بلند ہوتی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا ۔
یعنی جب ہر آدمی کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی گروہ کی حمایت یا مخالفت کر سکتا ہے تو لازماً بہتر سیاسی آراء سامنے آنی چاہئیں تھیں لیکن وہ اب تک سامنے نہیں آ سکیں ۔

3۔ سوشل میڈیا کی آمد:

تشدد میں کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے فرد جو رائے بناتا ہے اس کے اظہار کی جگہ سوشل میڈیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر آپ اپنی رائے کا اظہار بہت حد تک بے خوف و خطر کر سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی بحث کا معیار اس طرح بلند نہیں ہو سکا۔ آئیے اس پر کچھ بات کرتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کے آنے کا سب سے بڑا فائدہ جو ہوا، وہ مین سٹریم میڈیا کی پردہ کشائی تھی ۔ صحافیوں کی موقع پرستی کا پہلے بھی لوگوں کو اندازہ تھا لیکن اسی یا نوے کی دہائی میں اگر آپ کو یاد بھی ہوتا تھا کہ فلاں صحافی نے اپنا موقف یکسر بدل لیا ہے تو اس بات کا ریکارڈ تلاش کرنا ایک نہایت دقت طلب کام تھا ۔ریکارڈ مل جانے کی صورت میں وہ آپ زیادہ سے زیادہ کس کو دکھا سکتے تھے؟ محض شام کو گھر آنے والے آپ کے چند دوست ہی آپ کی اس دریافت سے لطف اندوز ہو سکتے تھے ۔
سوشل میڈیا پر آنے سے ایک تبدیلی تو بہرحال آئی ہے کہ لوگ صحافت کے مسائل کو بڑی حد تک سمجھنے لگ گئے ہیں ۔سوشل میڈیا نے لوگوں کے آپس میں ابلاغ کو بہتر کر دیا ہے ۔ اگر کسی سیاسی گروہ کا ایک فرد کسی معاملے میں کوئی ایک بامعنی دلیل گھڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو شام تک وہ اس گروہ کے ہر بڑے چھوٹے کی زبان پر جاری ہوتی ہے ۔ بعینہ یہی صورتحال ان کے سیاسی حریفوں کی کمزوریوں کی ہے ۔
اس سارے معاملے کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ صحافیوں سے مکمل طور پر بیزار نہیں ہو سکے ۔ یعنی ان کو بارہا یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ فلاں کالم نگار دروغ گو یا بددیانت ہے، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ کالم نگار پلٹتا ہے تو وہ عین اسی ’’دروغ گو‘‘ اور ’’ بددیانت‘‘ فرد کے کالم اپنے موقف کی تائید می‍ں پیش کرنے لگتے ہیں ۔ یعنی ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس سارے تجربے سے گزر کر اور ایک ایک صحافی کو موقع دینے کے بعد انھیں بالآخر ایک سیکھ ملتی ۔ اور وہ بات بالکل سادہ تھی کہ تمام صحافی فارغ ہیں اور ہرگز اس قابل نہیں کہ ان میں سے کسی کی کسی بھی معاملے پر رائے کو وقعت دی جائے۔ یہ انتہائی فطری ، جائز اور آسان جواب تھا جو اب تک سیاسی مباحث کرنے والے تمام افراد کو مل جانا چاہئیے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ سیاسی مباحث کی سطح بہتر نہ ہو سکی ۔ اب اس کا جواب دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں نہ ہو سکا ؟
اس کا بنیادی سبب مطالعے اور غور و فکر کی کمی ہے ۔مثال کے طور پر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک الف صحافی ہے جس نے اپنی کسی تحریر میں ب جماعت پر بے جا گرفت کی ہے تو اب ہو گیا؟ ب جماعت کے ارکان اس کے سابقہ کالموں کو نکال کر فوراً عوام کی خدمت میں پیش کر دیں گے ۔ یہ بات لیکن صرف یہاں تک نہیں رہتی۔ اس ساری صورتحال میں مزاحیہ رنگ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ اسی مطعون کالم نگار کی ہی اپنے موقف کی تائید میں لکھی ہوئی تحریر بھی لوگوں تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

صحافی کی بات کی تعریف یا مذمت ہر دو صورتوں میں آپ صحافی کی سند (اتھارٹی) کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں: صحافی کی بات سے صرف اور صرف بے اعتنائی ہی برتی جا سکتی ہے۔


اس سارے سلسلے میں وہ ایک بنیادی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اور وہ بنیادی غلطی یہ ہے کہ بھلے وہ اپنی جماعت کے حق میں صحافی کی بات کا حوالہ دیں یا اپنی جماعت کی مخالفت میں بات کرنے پر اسے مطعون کریں ۔ ہر دو صورتوں میں وہ دراصل اس صحافی کی سند / اتھارٹی کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں اور(نادانستہ طور پہ ہی سہی) اس میں اضافے کا موجب بھی بنتے ہیں۔
انھیں اس صحافی کی حمایت یا مخالفت کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کیونکہ وہ خود سے مطالعہ نہیں کر رہے ہوتے یا وہ بہت زیادہ سمجھداری سے رک کر معاملات پر غور و فکر نہیں کرتے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ گفتگو کے دوران اس قسم کی کمک کو حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر مطالعہ دراصل ان صحافی حضرات کی تحاریر ہی ہوتی ہیں، جن سے وہ اپنی نظریاتی وابستگی کے مطابق مواد کشید کرتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کے آنے کے بعد لوگوں کو بڑی حد تک کالم نگاروں کی حیثیت کا پتا چل گیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ان کی ساری بحث (دلیل اور رد دلیل) چونکہ ہر پھر کر صحافت کی دنیا میں ہی واقع ہو رہی ہوتی ہے تو جب کبھی ان کے حق میں کوئی بات آتی ہے تو وہ بہرحال اسے شیئر کر دیتے ہیں ۔
کسی صحافی کی بات کو پھیلانا ایک ایسی ترغیب ہے جس سے سیاسی ذہن کو صرف راسخ العقیدگی ہی باز رکھ سکتی ہے ۔ صحافی کی تائید وہ لمحہ ہے جب آپ کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ان کا حوالہ دینے اور ان کو فروغ دینے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ سادہ الفاظ میں ایسا بالکل نہیں کرنا چاہئے ۔ یعنی کالم نگار حضرات کی حمایت ان کی مخالفت سے زیادہ خطرناک ہے ۔
جب لوگ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ کالم نگار/صحافی کوئی بامعنی بات کہنے کے اہل نہیں ہیں تو ان پر یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ یہ کسی بامعنی بات کو سمجھنے کے بھی اہل نہیں ہیں ۔ سیاسی بحث میں صحافتی مواد کو پہچاننا اور اس سے دامن بچانا ضروری امر ہے۔ یہ مواد ردی ہے لیکن اسے ردی قرار نہیں دیا جا رہا۔ آپ غور فرمائیں کہ ہمارے ہاں ٹنوں کے حساب سے سیاسی بحث کا جو مواد پیدا ہو رہا ہے، وہ چوبیس گھنٹے بعد خود ہمارے لئے بطور قوم کسی معنی کا حامل نہیں رہتا کجا کہ سیاسیات کا کوئی بیرونی طالب علم یا پاکستان کے حالات میں دلچسپی رکھنے والا کوئی غیرملکی فرد چند ماہ بعد اس کو ایک نظر دیکھ سکے۔ اسے پڑھنے والوں کی زبان خراب ہوتی ہے اور ان کا ذہن ایک خاص عامیانہ فریکوئنسی پر کام کرنے لگتا ہے اور کسی بہتر خیال کو سمجھنے کے قابل نہیں رہتا اور لہٰذا اسے ردی قرار میں کسی بھی قسم کی تخصیص سے گریز کرنا بہت ضروری ہے ۔
دوسرا سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے ساتھ تعامل کا مسئلہ ہے ۔ اس معاملے میں ہر آدمی کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ جب کبھی اس کی پوسٹ پر کسی ایسے آدمی کا پسندیدگی کا اظہار آئے جو گوناگوں اخلاقی یا پیشہ ورانہ مسائل کا شکار ہے تو صاحب پوسٹ کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی بات میں ایسی کیا خرابی ہے جو اِس پست آدمی کو پسند آ گئی اور پھر اپنے موقف کے اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے یا اس سوال پر غور کرنا چاہئیے کہ میرے اندر کیا برائی ہے کہ اس فرد نے مجھے لائق سرپرستی/ تحسین سمجھا۔ نیز اللہ سے توبہ کرنی چاہئے کہ یہ شیطان مجھ سے کیوں خوش ہو رہا ہے ۔
اس معاملے میں شیخ امام بخش ناسخؔ کا ایک واقعہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے : ناسخؔ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی سخن وری کے کشتگان میں سے ہوں ۔ ناسخؔ استاد آدمی تھے، بات کی تہہ کو پہنچ گئے کہ فارغ آدمی ہے اور فضول بات کر رہا ہے ۔
جھٹ یہ شعر کہا
آدمی مخمل میں دیکھے مورچے بادام میں

ٹوٹی دریا کی کلائی زلف اُلجھی دام میں
اس آدمی نے بہت داد دی اور جھٹ محفل سے نکال باہر کیا گیا ۔
پس شیخ امام بخش ناسخؔ کی فکر کے احیاء کی ضرورت ہے ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search