مولانا فضل الرحمٰن : کیوں اور کیسے؟ ۔ ذوالنورین سرور

 In تاثرات

طاقت کا حصول ہی سیاست کا اول و آخر ہے لیکن اس کےلئے ایک بہانہ تلاشنا، جواز بنانا سیاست دان کا کام ہے۔ عام آدمی واقعہ (ایونٹ) کو ریسپونڈ کرتا ہے، سیاست دان واقعات (ایونٹس) کو ریسپونڈ کرتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے خالق ہیں۔ انھوں نے ایک اسٹیٹ کو اسٹیٹ بنایا۔ ان کی کہانی کا انجام ہماری تاریخ کی Achilles-heel ہے۔ بینظیر واقعی بے نظیر تھی۔ بہادر باپ کی بہادر بیٹی جس نے غیرمعمولی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور بھٹو کی ’’شہادت‘‘ کے رستے گھاؤ کو ہمیشہ کے لئے بھر دیا۔’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ ایک جھوٹ تھا۔یہ ایک جھوٹ تھا جسے پاکستان کی بقا کے لیے تراشا گیا۔ اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو گا کہ یہ کام ایک بیٹی کو کرنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھٹو قتل ہوا تھا اور اس کے قاتل معلوم تھے۔بے نظیر نے باپ کے انتقام پر باپ کے بنائے ہوئے ملک کو ترجیح دی۔ حالیہ برس میں جو کام کرنے کے لیے نواز شریف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور اب فضل الرحمن سے ساری امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں، وہ بے نظیر کے لیے محض ایک سچ بولنے کی دوری پر تھا۔

مولانا کی سیاست پشتون، ختم نبوت اور مدارس کے گرد گھومتی ہے۔

طاقت کا نظام غیر معمولی سفاکیت رکھتا ہے۔اس میں نیا داخل ہونے والا کھلاڑی ، پہلے سے موجود کھلاڑیوں سے اپنے تعلقات کی بنیادیں خود طے کرتا ہے۔ اس میں نہ غلطی کی گنجائش ہے اور نہ دوسرا موقع ملتا ہے۔ بے نظیر نے بقائے باہمی کی خاطر جو سیاسی ’’قربانیاں‘‘ دیں، ان میں کراچی اور پنجاب سے دستبرداری سر فہرست ہے۔ سیاست صرف قبضے و تصرف اور پھر اس تصرف کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ سیاسی نظام اگر اس کی اجازت نہ دے سکے /اس لڑائی کا متحمل نہ ہو یا ایک فریق نظام تباہ کرنے کا روادار نہ ہو تو پھر نتائج ہمیشہ کے لئے بھگتنے پڑتے ہیں۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی نے بھگتے اور آج تک بھگت رہی ہے۔
بے نظیر کے متوازی ایک کہانی مولانا فضل الرحمن کی ہے۔یہ کردار بلیک میل ہونے والا نہیں بلکہ بلیک میل کرنے والا ہے۔ عبداللہ درخواستی صاحب ایک مدرس تھے۔سیاسی سمجھ بوجھ کم تھی۔ وہ دنیوی آلائشوں سے آزاد ایک ایسا کردار تھے جو سیاست کے لئے قطعی غیر موزوں تھا۔ ان کی غیر سیاسی سرگرمیوں نے فضل الرحمن کو مذہبی سیاست کا چہرہ بننے کا موقعہ فراہم کیا۔فضل الرحمٰن اس حد تک جلد باز تھے کہ وہ ننانوے سال کے ایک بزرگ کی وفات کا انتظار بھی نہ کر سکے اور ان کا یہ فیصلہ درست بھی ثابت ہوا کیونکہ درخواستی صاحب، مولانا سمیع الحق صاحب کی دستاربندی کے بعد مزید آٹھ برس تک حیات رہے۔

مولانا کا یہ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات وہ لہر ہیں جس کی سواری انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گی۔

مولانا فضل الرحمٰن اس وقت سے پاکستان کے سیاسی نظام کا ایک اہم ترین حصہ ہیں۔ پاکستان میں مذہبی سیاسیات کی ساری دکانیں دیوبندی حضرات کے پاس ہیں۔ کراچی سے خیبر تک ہر طرح کے سیاسی معاملے پر مذہبی رائے دیوبندی جاری کرتے ہیں۔ بریلوی باوجود اپنی عددی اکثریت کے سیاسی معاملات میں ’’ڈس انفرنچائزڈ‘‘ لوگ ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ایک کوشش خادم حسین رضوی صاحب نے کی تھی لیکن وہ اپنی آرزوؤں اور ’’حقیقت‘‘کے مابین کوئی زندہ تعلق دریافت کرنے میں ناکام رہے، اس لیے اکثریتی عوام ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاست کے مدار سے نکل گئی۔
خیر فضل الرحمٰن صاحب نے اپنے آپ کو تمام کھلاڑیوں کے لئے ایک کارآمد مہرہ ثابت کیا اور تمام ممکنہ دنیاوی فوائد سے مستفید ہوئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مولانا کا پسندیدہ ترین کھانا پیزا ہے۔اس بات کی اہمیت میں واضح کرتا چلوں کہ جب لوگ ایک دیس چھوڑ کر دوسرے دیس میں جاتے ہیں تو لباس رنگ ڈھنگ زبان ہر چیز نئے دیس کی اختیار کر لیتے ہیں لیکن اپنےدیس کے کھانے ان کو ہر لمحہ یاد آتے ہیں۔ یعنی تہذیبی رویوں میں جو چیز انسانی سطح پر چھوڑنی سب سے مشکل ہے،وہ زبان کا ذائقہ ہے۔( ویسے تو عاصمہ شیرازی کے آج کے انٹرویو کے دوران مولانا کی انگریزی ملی اردو سننا بھی ایک پرلطف تجربہ تھا)۔
دیوبند کے سیاسی اذہان میں سامراج دشمنی اور روایت بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب کی وفات کے بعد چونکہ وہ واحد نمائندے بن کر سامنے آئے ہیں تو بطور فرد اور سیاسی شخصیت ان کی تہذیبی قلبِ ماہیت ہو چکی ہے۔ بطور سیاسی شخصیت ان کی قلبِ ماہیت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا بیان آگے آئے گا۔
مولانا کی سیاست پشتون، ختم نبوت اور مدارس کے گرد گھومتی ہے۔ پشتون سیاست میں حالیہ عرصے میں جوہری تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان میں منظور پشتین کے عنصر اور پی ٹی آئی نے ایک ٹیم بن کر مولانا کی سیاسی حیثیت کو رگیدا ہے۔ خادم حسین رضوی صاحب نے ختم نبوت پر ان کی اجارہ داری کو نہایت جارحانہ انداز میں للکارا ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت میں مولانا طارق جمیل نے ملکی سیاست کے تمام کھلاڑیوں کی تمام مذہبی ضرورتوں کو غیر معمولی ایفی شنسی سے پوری کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ساری صورتحال ایک مدت سے مولانا کی نگاہ میں تھی۔ اس کے علاوہ الطاف حسین اور ان کی جماعت کے ساتھ کراچی میں جو سلوک ہوا ؟ لاہور میں نواز شریف اور ان کے خاندان کا جو حال ہوا؟ اس نے افواج پاکستان کی سیاسی آرزومندی پر کافی سوالات اٹھائے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو ایک مدت سے دیوار کے ساتھ لگائی ہی گئی ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی مع اپنی لیڈرشپ اور قومی اداروں کے ایک طرف کھڑی ہے اور دیگر ساری سیاسی جماعتیں دوسری طرف کھڑی ہیں۔ جو گرہ بھٹو کی پھانسی سے لگی تھی وہ تو بے نظیر نے کھول دی لیکن چار صوبوں کی زنجیر ٹوٹنے کے بعد قومی یکجہتی کو ممکن بنانے والی کوئی شخصیت اب باقی نہیں رہی۔ زرداری صاحب نے اپنا کردار اگرچہ ادا کیا لیکن پاکستان کھپے کے نعرے کا جو استہزاء بارہ سال پہلے شروع ہوا تھا وہ آج ملکی سیاست کو اس مقام پر لے آیا ہے کہ پاکستان پائندہ باد کہنے والے خاموش ہو بیٹھے ہیں۔

مذہبی بنیادوں پر مولانا کا موقف وجود ہی نہیں رکھتا۔ خالص عقلی/ سیاسی بنیادوں پہ اپنا موقف وہ بیان نہیں کر سکے؛ ان کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

ہم واپس مولانا فضل الرحمٰن کی طرف آتے ہیں اور بھٹو صاحب کے سیاسی احوال کے ساتھ ان کے سیاسی احوال کی جو مماثلت ہے اس کو بیان کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک لہر (سوشلزم ) کو محسوس کیا اور اس پر سوار ہو کر اس کا رُخ اقتدار کے ایوانوں کی جانب موڑ دیا۔ اب مولانا کا یہ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات وہ لہر ہیں جس کی سواری انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گی۔ یہ راستہ کافی دلچسپ ہے اور ظاہر ہے کہ پُر خطر بھی ہے۔ مولانا لیکن ساکن رہنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے تھے۔ سیاستدان فاعل کی حیثیت میں ہی زندہ رہتا ہے۔مفعول ہونا ایک کاروباری آدمی کے لیے تو قابل قبول ہے لیکن سیاستدان کے لئے سم قاتل ہے۔ بالخصوص جب وہ اتنے اطراف سے گھیرے میں ہو۔ ان اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا نے اپنی آخری اننگ اگلے قدموں پر کھیلنی کی سوچی ہے۔ یہ آخری اننگ لیکن صرف ان کی نہیں ہے۔ جیسا کہ روایت ہے کہ رومن بادشاہ ناکام سازش کرنے والے کو خودکشی کی اجازت دیتے تھے اور اس سے اس کے خاندان والوں کی زندگیاں اور جمع پونجی محفوظ رہتی تھی ۔ فی زمانہ نظام کا پہیہ چلتا ہے اور خودکشی جیسے ذاتی افعال ، ’’بدلے‘‘ کے نظام کی میکانیت کو نہیں روک سکتے۔
مدارس کے مہتمم حضرات نے جس سیاسی بے بصیرتی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح ہر مدرسے سے دس دس ہزار روپے چندہ ایک فرد کی رضا کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔ یہ مدارس کے سارے ڈھانچے کو ڈھانے کا سبب بنے گا۔اس سے نئی سیاسی اور سماجی جہتیں کھلیں گی اور المورد حضرات کے لیے مزید خوشخبریوں کی آمد متوقع ہے۔ عالمی سامراج کی جن ضروریات کو وہ پورا کر رہے تھے، وہ اب ملکی منڈی میں بھی پیدا ہوا کریں گی۔ضیاء کے دور میں جس طرح طلباء یونینز کو ختم کیا گیا بعینہ وہی سلوک مدارس کے ساتھ اگلے چند برسوں میں ہو گا۔ المورد نئے زمانے کی ’’جمعیت طلبہ‘‘ ثابت ہوگی۔ اسی طرح پاکستانی سیاست میں اور پشتون سیاست میں مذہبی سیاست کا خاتمہ مذہب بیزار حضرات کے لیے کافی دل خوش کن نظارہ ہو گا۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت مولانا نے پشتون سیاست کی باگ ڈور سنبھالی تھی اس وقت ان کی عمر کوئی ستائیس برس کے لگ بھگ تھی اور منظور پشتین کی عمر بھی اس وقت قریباً اتنی ہی ہے۔

دین کو اول و آخر استعمال کرنے کا عادی بھی اس ہنگامے میں سے ثواب یا اخروی نجات کا کوئی پہلو برآمد کرنے سے قاصر ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ان کا اپنا اصل ہدف بیان نہ کر پانا ہے۔ اگر آپ ان کا انٹرویو سنیں تو وہ محض ایک ملمع کاری ہے۔ اس دوران جتنی گفتگو ہوئی اس میں ایک بار بھی وہ کسی قسم کی عقلی بنیادوں پر اپنا موقف بیان نہیں کر پائے۔ مذہبی بنیادوں پر تو موقف کا وجود سِرے سے ہے ہی نہیں۔ خالصتاً سیاسی بنیادوں پر بھی وہ کوئی بات کرنے سے قاصر رہے۔ یہ جعل سازی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ جلد یا بدیر انھیں اپنے پیروکاروں کو اپنے ہدف کے متعلق ابلاغ کرنا ہو گا اور یہ مرحلہ قطعاً آسان نہیں ہو گا۔ مدارس نے جو افرادی اور مالی قوت انھیں فراہم کی ہے یہ وہ آخری سیاسی کمک ہے جو مدارس سے کسی سیاسی کاز کو دی گئی ہے۔ دوبارہ ایسا ہونے کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔ایسا سیاسی ارادہ جو اپنی عملی صورتوں کا کوئی واضح بیان نہ رکھتا ہو، محض تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ مولانا کی سیاست، سیاسی ارادے اور اس کی اطلاقی صورتوں کو سمجھنے کے لئے ایک غیر معمولی نمونہ ہے۔ مولانا کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ان کے آدرشوں اور ان کی حمایت کرنے والےسماجی گروہ کے مابین دوری ہے۔ مولانا سے پہلےجمعیت میں لیفٹ کے عناصر ایک طویل روایت کی صورت میں موجود تھے،ان میں سے زیادہ تر لوگ تو شیرانی گروپ میں چلے گئے۔اس طرح انھوں نے بڑے اہتمام سے جمعیت کے بڑے دھڑے کو نظرئیے جیسی ’’آلائش‘‘ سے پاک رکھا۔ مولانا سے پہلے، جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور اس کے کارکنان کی زندگی میں کوئی بنیادی فرق نہیں تھا۔ وہی لوٹا اور جائے نماز جو امیر کا نصیب تھا، کارکن کو بھی میسر تھا۔ مولانا نے اپنی جماعت کی قیادت سنبھالنے کے بعد صرف طرز زندگی ہی میں نہیں بلکہ افکار کی دنیا میں بھی اپنا راستہ الگ کیا۔ آج انھوں نے جس سول سپرمیسی کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے، یہ اسی گروہ کی ضرورت اور مطالبہ ہے جو اقتدار میں مستقل بنیادوں پر شریک ہے۔ اس کےبرعکس جو گروہ ان کی حمایت میں آیا ہے وہ تو راندہ درگاہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ یہ لوگ تو مذہبی عقیدت کی ڈور سے بندھے چلے آئے ہیں۔ نہ ان لوگوں کو سمجھ ہے اور نہ ہی ان کی کسی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر یہ ترتیب بنائی گئی ہے۔ حتی کہ دین کو اول و آخر استعمال کرنے کا عادی بھی اس ہنگامے میں سے ثواب یا اخروی نجات کا کوئی پہلو برآمد کرنے سے قاصر ہے۔

Recommended Posts
Comments
  • Noorulain
    جواب دیں

    Boht- hi- alla -tehreer -hai… nahayat- shaiata- andaaz-main -molana- ka -makrooh -face -samnay -aya -hai

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search