کرونا ۔ تحریر: محمد دین جوہر

 In تاثرات

کرونا کی وبا نے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جو انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں رکھتے۔ ایسی صورت حال جو پہلے کبھی پیدا نہ ہوئی ہو اس کے تجزیے اور تفہیم کی مشکلات چند در چند اور تہہ در تہہ ہوتی ہیں۔ وبا کے ذریعے، فطرت انسانی معاشرے کے حالات اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرتی رہی ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں تاریخ، فطرت پر غیرحتمی لیکن بہت واضح غلبہ رکھتی ہے۔ وبا انسانی معاشرے اور تاریخ کے خلاف فطرت کا راست اقدام ہے۔ وبا کے خلاف عالمی ریاست کے رد عمل اور اس کی شدت نے عالمی معاشی نظام کو ادھیڑ دیا ہے، اور ناقابل تصور ایک معمول بن کے ظاہر ہوا ہے۔ اس امر کا قوی امکان ہے کہ معاشی بھونچال گہرے اور دور رس سیاسی نتائج کو جنم دے گا۔ موجودہ صورتحال کو درج ذیل پہلوؤں سے زیربحث لانا مفید ہو سکتا ہے:

۱۔ کرونا بطور وبا اور اس پر طبی اور سائنسی موقف

۲۔ میڈیا کی طاقت

۳۔ ریاست اور وبائے کرونا

۴۔ وبائے کرونا کی سیاست

۵۔ کرونا کے تدارک کے لیے اقدامات

۶۔ کرونا کے معیشت پر اثرات اور ان کے ممکنہ نتائج

۷۔ کیا کرونا عذاب الہی ہے؟

۱۔ کرونا بطور وبا اور اس پر طبی اور سائنسی موقف

جس طرح ایک فرد کی بیماری یا موت خاندان کے معاشی اور سماجی حالات پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے، اسی طرح وبا انسانی معاشروں کی سیاسی اور معاشی حیثیت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وبا تاریخ کا رخ پھیر دے کیونکہ وبا فطرت اور تاریخ کی قوتوں کو سیلاب صورت انسانی معاشروں میں جاری کر دیتی ہے۔  بیماری اور وبا میں موت کی شرکت جو تقدیری صورت حال پیدا کرتی ہے، اس میں بے یقینی اور خوف  کی مرکزیت کے باعث انسانی ارادے کے انتخابات محدود ہو جاتے ہیں۔

کرونا کی وبا کا آغاز گزشتہ سال نومبر میں چین کے شہر ووہان سے ہوا۔ آغاز ہی سے وائرس کے منابع اور پھیلاؤ کے بارے میں ایسی بحثیں چھڑیں کہ سازشی نظریے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر سے صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے بقول کرونا وائرس لیبارٹری میں تیار شدہ ہے اور امریکی حکومت مزید معلومات کے لیے چین پر زور دے رہی ہے۔ یہ صورتحال نظریہ سازش سے آگے کی چیز معلوم ہوتی ہے جس میں دنیا کے دو طاقتور ملک ایک دوسرے کو وبائی وائرس تیار کرنے اور اسے انسانی معاشرے پر چھوڑنے یا لیبارٹری سے اس کے حادثاتی طور پر چھوٹ جانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں وبا کو ایک طبی، انسانی اور سماجی مسئلے کے طور پر زیربحث لانا ممکن نہیں کیونکہ گہرے ”پراسرار“ مقاصد اب سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آغاز ہی سے وبا کے بارے میں علمی، سائنسی اور طبی معلومات میں معروضیت کا فقدان رہا ہے اور ایسا کوئی آزاد ذریعہ موجود نہیں ہے جس سے معروضی اور درست معلومات حاصل ہو سکیں۔ چونکہ اول روز سے ہی ”عالمی ریاست“ نہایت فعال ہراول کے طور پر سامنے ہے، اس لیے وبا کے ”علم“ اور معلومات کی ترسیل میں عالمی ریاست کے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی ایجنڈے کو خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔

کرونا کے منبع کا مسئلہ فی الوقت طبی یا سائنسی نہیں ہے، کیونکہ اس پر معروضی علم کے ذرائع مفقود ہیں۔  کرونا اب کوئی سائنسی یا علمی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ سیاسی طاقت کی سفاکی، سرمائے کی خداوندی اور میڈیائی قوت منبع کے مسئلے کو حل کرے گی، اور صاف ظاہر ہے اس کا الزام طاقت ور کے سر نہیں آنے کا۔  جدید سائنس نے سرمائے اور ریاست کی جس طرح ہمیشہ سے غلامی کی ہے وہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے لیکن موجودہ لمحہ سائنسی علم کی تاریخ کا پست ترین اور شرمناک ترین لمحہ ہے۔ سائنسی ”صاحب علم“ سرمائے کی بخشیش اور ریاستی چابک کے بغیر کوئی علم پیدا کرنے کی صلاحیت ہی سے خالی ہو چکا ہے۔ وبا کے منابع اور نوعیت جاننے کا کوئی معروضی ذریعہ دستیاب نہ ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے،  کیونکہ اس کا براہ راست تعلق وبا کے علاج سے بھی ہے۔ یہ سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ سائنسی اور علمی معروضیت اگر وبا کے حوالے سے باقی نہیں رہی تو اس کے علاج میں کیونکر باقی رہ سکتی ہے؟  جس طرح کرونا ایک بہت ہی بڑا سیاسی اور معاشی مسئلہ بنا ہے، اسی طرح وبا کے علاج اور ویکسین کے حوالے سے سائنسی معروضیت کی توقع رکھنا بھی قطعی عبث ہے۔ یہ بات ذمہ داری سے کہی جا سکتی ہے کہ وبا کے علاج اور ویکسین میں معاشی اور سکیورٹی ترجیحات غالب رہیں گی۔ انسانیت نے سائنسی علم کی ایسی دیوثی کبھی نہ دیکھی ہو گی۔

ذاتی طور پر میں اس مفروضے کو درست سمجھتا ہوں کہ کرونا لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس ہے، اور یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ایک ایسا عالمی سیاسی اور معاشی نظام جس کی پاسداری کرتے ہوئے چین ایک عالمی طاقت بنا ہے، عین اسی عالمی نظام کو درہم کرنے کا داعیہ اس قوت سے بعید ہے جو اس سے بہرہ ور ہوتی رہی ہو اور اب بھی ہو۔

اس امر کے قوی شواہد ہیں کہ کرونا وائرس واقعی لیبارٹری میں تیار ہوا ہے، اور یہ انسانی ضمیر کے لیے تشویشناک اور انسانیت کی بقا کے لیے خطرناک ہے۔ عالمی سرمائے کی ہمہ خوری، جدید عالمی ریاست کی سفاکی اور سائنسی علم کی دیوثی نے انسانیت کو ایک ابلیسی لمحے سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکہ جدید ریاست اسر عقلی علوم کے تمام آدرشوں کا تحقق اور تجسیم ہے، اور وہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے نہ صرف لیس ہے بلکہ اس پر مسلسل تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے۔ کرونا کی لیبارٹری تیاری کے سائنسی، سیاسی اور سکیورٹی کے پس منظر کو سمجھنے اور سائنس کی علمی ”معروضیت“ کی خوش فہمی کے علاج کے لیے نومی کلائین (Naomi        Klein) کی کتاب The        Shock        Doctrine کو دیکھ لینا مفید ہو سکتا ہے، کیونکہ وبائے کرونا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کو درست طور پر سمجھنے کے لیے خوش فہمی کا اول علاج ضروری ہے۔ کرونا وائرس کے منابع کے حوالے سے امریکہ اور چین کے مابین سفارتی سطح پر اور فضائے انام (public        sphere) میں جو بحث جاری ہے، اس کے ہوتے ہوئے کرونا کو صرف وبا اور علاج کے تناظر میں دیکھنا معاشروں، ملکوں اور قوموں کے لیے مہلک اور جان لیوا ہو سکتا ہے۔ کرونا ایک وبا تو یقیناً ہے، لیکن یہ سرمائے اور سیاست کی زرہ پہن کر ایک بلا بن کے انسانیت پر مسلط ہوئی ہے۔

مغربی ممالک خصوصاً امریکی رد عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن سے صرف وبا کا خاتمہ مقصود نہیں بلکہ بیک آن بہت سی چیزوں کا خاتمہ مطلوب ہے۔ اور وہ کیا ہو سکتی ہیں، یہ ہر آدمی اپنی اپنی ”خوش فہمیوں“ کے منشور میں دیکھ رہا ہے۔

۲۔ میڈیا کی طاقت

وبا کے نتیجے میں دنیا جس لاک ڈاؤن سے گزر رہی ہے، اس کا نفاذ صرف ریاستی طاقت سے ممکن نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے عالمی ریاست نے چھاتہ برداری کے عسکری ماڈل کو برتا ہے۔ میڈیا بطور چھاتہ (پیراشوٹ) کام کر رہا ہے، سپاہی خوف ہے اور جغرافیہ انسانی شعور ہے۔ میڈیا کو بطور چھاتہ (پیراشوٹ) کام میں لانا ہر طرح کے جدید میڈیا کی weaponization (ہتھیار گری) کی نہایت خوفناک مثال ہے۔ اس وبا کے دوران میڈیا کی جیسی طاقت سامنے آئی ہے وہ ناقابل تصور ہے۔ طبعی ٹیکنالوجی انسان کے میکانکی عمل کی توسیع ہے، اور میڈیا، جیسا کہ مارشل مکلوہن نے بجا طور پر کہا ہے، انسانی شعور کی توسیع ہے۔ یہ توسیع جس سائبر ٹیکنالوجی سے بروئے کار لائی گئی ہے اس کا مکمل کنٹرول بھی امریکہ ہی کے پاس ہے۔ میڈیا جدید عالمی ریاست کی انفسِ انسانی تک مکمل رسائی اور کنٹرول کو ممکن بنا چکا ہے۔ وبا کی صورت حال میں میڈیا کی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے پوری انسانیت کے انفرادی اور اجتماعی شعور کو آناً فاناً خوف کے احوال پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ خوف جس شدید عدم تحفظ کو جنم دیتا ہے اس میں طاقت کی deployment آسان ہو جاتی ہے۔ خوف کے ماحول میں معروضی علم اور انسانی حقوق کا مسئلہ دونوں ختم ہو جاتے ہیں اور طاقت کا لا محدود استعمال واحد حقیقت کے طور پر باقی رہ جاتا ہے۔ اور یہ نفاذ عالمی طاقت اپنے مفادات اور ایجنڈے کو سامنے رکھ کر بروئے کار لاتی ہے۔ اس وقت ہم عین اسی صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

یہ امر ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ خوف وبا اور بیماری سے بچاؤ یا علاج میں معاون نہیں ہوتا۔ بیماری سے لڑنے کے لیے امید اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی میڈیا اور اس کے مقامی پتی دار جن عالمگیر قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ صرف خوف ہی پھیلا سکتے ہیں جو سیاسی طاقت اور اس کے انفسی اور آفاقی نفاذ کی اولین ضرورت ہے۔

۳۔ جدید ریاست اور وبائے کرونا

وبا کے سامنے آتے ہی سائنسی علم کی نارسائی کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے ریاست نے ”خدائے کل“ کے طور پر صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ وبا کے روبرو جدید ریاست کے رول پر اکانومسٹ نے تفصیل سے لکھا ہے اور اسے وہیں پر دیکھ لینا چاہیے۔ علم عمل کو مستلزم ہے، اور وہ معروضی علم امریکی ریاست اور اس کے حلیف عالمی اداروں کو حاصل نہیں ہے۔ اب تک یہ خوش فہمی چلی آتی تھی کہ مغرب انسانیت کی ”خدمت“ اس لیے سرانجام دے سکا ہے کہ معروضی سائنسی علم اور عقلیت اس کے سیاسی عمل کی بنیاد رہے ہیں۔ وبا نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مغرب کےسیاسی عمل کی بنیاد ہمیشہ کی طرح اب بھی سیاسی غلبے کا ہوکا اور سرمائے کی لامحدود ہوس ہے۔ عالمی ریاست کا  یہ ”خدائے کل“ اپنے غلبے اور سرمائے کے لیے باؤلا ہو چکا ہے اور موجودہ حالات سے   خیر کی کوئی امید باندھنا محض خوش فہمی ہے۔ جدید ریاست کو اپنے عمل کے لیے مطلوب سائنسی علم کی عدم فراہمی میں اس نے اپنے اختیارات میں لا محدود اضافہ کر لیا ہے۔ انسانی جسم اور شعور پر جدید ریاست کا کنٹرول جو پہلے بھی کچھ کم مضبوط نہیں تھا، اب نئی اور خوفناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ جدید ریاست کی اصل معنویت موت پر اختیار نہیں بلکہ زندگی پر کنٹرول ہے جیسا کہ فوکو نے کہا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ وبا کی آڑ میں جدید ریاست کو جو نئے اختیارات ازخود حاصل ہو چکے ہیں ان میں انسان کی نام نہاد آزادیاں کہاں تک باقی رہ سکتی ہیں؟ میرا خیال یہ ہے کہ جدید عالمی ریاست کا ”خدائے کل“ تحفظِ حیات کی آڑ میں موت کا سوداگر ہے۔ آزادیاں تو دور کی بات ہے جدید عالمی ریاست کے اقدامات سے اب پوری انسانیت کی بقا خطرے میں ہے۔

۴۔ وبائے کرونا کی سیاست

یہ امر اب علم سے گزر کر روزمرہ تجربہ بن چکا ہے کہ وبائے کرونا بہت گہری اور ابھی تک ”نامعلوم نتائج“ کی حامل معاشی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔ انسان کی زندگی اور موت میں جو اسباب کارفرما رہے ہیں ان میں فطرت تاریخی اسباب پر غالب رہی  ہے۔ جدیدیت اور اس کے پیدا کردہ عالمگیر نظام کی ایک بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اب انسان کی زندگی اور موت میں سسٹم کی حیثیت غالب اور اول ہو گئی ہے۔ انسانی اجتماع کی بقا اور فنا میں سسٹم اب نہ صرف فطرت کی جگہ لے چکا ہے بلکہ اس پر اپنے نرغے کو مؤثر بنا چکا ہے۔ موجودہ حالات میں انسانی زندگی اور موت کا انحصار سسٹم پر کہیں زیادہ ہے۔ سسٹم میں آنے والی کوئی بڑی تبدیلی اب انسانی معاشروں اور ان کی زندگی کے لیے مخدوش امکانات و حقیقتی خطرات کی حامل ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرونا کے تناظر میں عالمی سسٹم کی حرکیات کو سمجھنا نادانی اور نری حماقت ہے، اور تمام سازشی نظریات اسی لمحاتی تناظر سے پیدا ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وبائے کرونا کو سسٹم کے طویل تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ سسٹم کی موجودہ حرکیات کا تناظر اشتراکی روس کے انہدام اور مابعد واقعات سے فراہم ہوتا ہے۔ اس میں ایک بنیادی ترین امریکی داعیہ کارفرما ہے کہ اکیسویں صدی کو ”امریکی صدی“ بنا دیا جائے اور عالمی سسٹم پر اپنی گرفت کو ہر صورت برقرار رکھا جائے اور اس گرفت کے لیے پیدا ہو جانے والے خطرات کا ازالہ کیا جائے۔ اشتراکی روس کے انہدام کے بعد پہلا عالمی خطرہ ”اسلام“ کو قرار دیا گیا تھا اور گزشتہ ربع صدی میں جدید سیاسی، معاشی، سماجی اور فلسفیانہ علوم کی پیداوار اسی ایجنڈے کے تابع رہی ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے امریکہ نے یہی فائدہ اٹھایا اور اس کا واحد مقصد پاکستان کا خاتمہ تھا تاکہ چین کے لیے پاکستانی افادیت باقی نہ رہے، پاکستان کے نیوکلیر ہتھیاروں کا ازالہ کیا جا سکے، اور وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ پر اپنے سیاسی اور معاشی غلبے کو مضبوط بنایا جا سکے، اور وہاں مدفون قدرتی وسائل تک کسی دوسرے کی رسائی پر یقینی قدغن لگائی جا سکے۔ افغان جنگ میں امریکی ناکامی سے یہ مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے۔ وبائے کرونا کو عالمی سسٹم اور امریکی ایجنڈے میں ایک بڑے نائن الیون کی حیثیت سے بھرتی کر لیا گیا ہے اور عالم انسانیت کے لیے اس کے اثرات ازحد خطرناک ہو سکتے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ اور جنگی مجرم ہنری کسنجر  کے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے مضمون کو برسر لفظ اور بین السطور پڑھنا اس موقع پر افادیت سے خالی نہیں۔ ان کی امید بر آئی ہے کہ عالم انسانیت کا مستقبل اب شعلوں کی رہگزر ہے۔

موجودہ سیاسی صورت حال میں امریکہ کی طرف سے چین کو وبا کے لیے مورد الزام ٹھہرانا بہت واضح سیاسی ایجنڈا ہے۔ اس کا مقصد پوری دنیا کو دھونس اور دھاندلی سے چین کے خلاف صف آرا کرنا ہے، اور اس کام کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ دوسرا بڑا مقصد دنیا کے پورے معاشی نظام کو درہم برہم کرنا، اور اپنے ملکی معاشی نظام کو لامحدود بخشیش سے مستحکم رکھنا ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ فی زمانہ انسانیت کی بقا عالمگیر سسٹم پر منحصر اور مقصور ہے، اور اس کو بندش کا دھچکہ کمزور معاشروں اور ممالک کو یقینی بھوک اور موت سے دوچار کر سکتا ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے بہت سے ممالک تو پہلے ہی قوت لایموت کی حالت میں تھے، اور ان کا جینا مرنا پہلے بھی اہم نہیں تھا۔ اب بھی انہیں کون پوچھے گا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ چین کی خوشحالی اور ترقی چونکہ سابق سے جاری موجودہ عالمی نظام میں شرکت اور اس کی پاسداری سے مشروط تھی اس لیے اس نظام کو ادھیڑنا ضروری سمجھا گیا۔

یہاں اس امر کا اعادہ ضروری ہے کہ سرمائے اور طاقت کا عالمی نظام جو گزشتہ تقریباً اڑھائی سو سال سے جاری اور فعال تھا، اس کو یک بیک بند کر دیا گیا ہے۔  یہ تعطلی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پورا عالم انسانیت اپنی بقا کے لیے بتدریج اس نظام کا متوسل اور اس پر منحصر ہے۔ زمین جن خزانون سے مالا مال ہے وہ اس سسٹم کی بڑھتی ضروریات میں کم پڑ رہے تھے، اور وہ مغرب کے طرز زندگی کو آئندہ لامحدود صدیوں تک توسیع دینے کے لیے ناکافی تھے۔ ان خزائن کی زمینوں پر آباد ننگ دھڑنگ لوگوں کو زیرزمین کرنا اور ان وسائل پر براہ راست کنٹرول کرنا مغربی طرز زندگی کی لامحدود توسیع کے لیے ضروری تھا۔ وبائے کرونا سے اتنے لوگوں کا مرنا محض امکانی تھا، جبکہ سسٹم کے تعطل سے وسیع و عریض آبادیوں کا بھوک اور موت سے دوچار ہونا یقینی ہے، اور موجودہ پالیسی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ اہل نظر افریقہ اور لاطینی امریکہ میں ان مدفون وسائل تک رسائی کے لیے چینی سرمایہ کاری سے واقف ہیں۔ چین کا ان وسائل کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا، ان کے حصول کی تگ و دو کرنا اور اس کے لیے سرمایہ کاری کرنا مغرب کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا ہے۔ سسٹم کو بڑا دھچکا دینا چین کی تنبیہ اور بزعم مالکان چیچڑ جھاڑنے کے لیے ضروری تھا۔

موجودہ عالمی سیاسی اور معاشی صورت حال میں چین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاکستان پر شدید دباؤ کے حقیقی امکانات موجود ہیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پاکستان ان خطرات سے کیونکر نبردآذما ہو سکتا ہے۔

۵۔ کرونا کے تدارک کے لیے اقدامات

کرونا سے لڑنے کے لیے مطلوبہ سائنسی علم موجود نہیں، لیکن متوقع یقیناً ہے۔ علم کی اس کمی کو جدید ریاست ہراسانی عمل سے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جدید عمل اصلاً ادارہ جاتی ہے۔ وبا کے دوران ہسپتال کئی گنا زیادہ فعال ہوئے اور ان کا کام کئی گنا بڑھ گیا، یہاں تک کہ عارضی ہسپتال بھی قائم کرنے پڑے۔ وبا زدہ آبادی کو ہسپتال پہنچانے یا انہیں کوارنٹائن دینے کے ساتھ ساتھ صحت مند آبادی پر ایک دوسرا ماڈل لاگو کیا گیا جو جیل ہے۔ یعنی وبائے کرونا سے لڑنے کے لیے جدید ریاست کے پاس عمل کے دو ماڈل ہیں کہ ہسپتال دے دو یا جیل کر دو۔ صحت مند آبادی کو جیل کرنے سے پورا معاشی نظام رک گیا ہے۔ علاقائی اور عالمی معاشی نظام کی بندش  انسانی زندگی کے لیے وبا سے کہیں زیادہ گہرے اور دور رس نتائج کی حامل ہے۔ وبا کے دوران ہسپتالوں میں کام بیسیوں گنا بڑھ گیا ہے اور ہمارے ڈاکٹروں اور طبی عملے نے غیر معمولی دلاوری اور بے سروسامانی کے عالم میں صورتحال کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ صحت مند معاشرے پر جیل کے ماڈل کو لاگو کرنے سے معاشی عمل ختم ہو گیا ہے۔  ایک طرف کام کا بیسیوں گنا بڑھ جانا اور دوسرے طرف کام کا ختم ہو جانا معاشرے کے لیے نہایت سنگین مضمرات رکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ معاشرے کو ہسپتال اور جیل بنانے کی پالیسی ترک کی جاتی اور ایک ہی ماڈل کی پاسداری کی جاتی۔ ریاستی طاقت اور میڈیائی قوت استعمال کرتے ہوئے پورے معاشرے کو ہسپتال کے ماڈل پر منتقل کرنا زیادہ مفید ہو سکتا تھا۔ جدید ریاست اتنی انتظامی قوت اور وسائل رکھتی ہے کہ پورے معاشرے کو ہسپتال بنا کر معاشی سرگرمی کو جاری رکھ سکتی تھی۔ لیکن میرا گمان ہے کہ پاکستان جیسی دنیا بھر کی ریاستیں لاک ڈاؤن پر مجبور اور بے بس ہیں، تاکہ معاشی عمل کے تعطل سے عالمی ریاست کے مطلوبہ سیاسی مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔

۶۔ کرونا کے معیشت پر اثرات اور ان کے ممکنہ نتائج

کرونا کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کی پالیسی عالمی سطح پر اختیار کی گئی اور دنیا بھر میں اس کے نفاذ کو یقینی بنایا گیا۔ میرا قوی گمان ہے کہ یہ لاک ڈاؤن میڈیائی خوف اور قرض دہندہ اداروں کی دھونس دھمکی سے ممکن بنایا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کا لفظ تو تفریح طبع کے لیے درست ہے لیکن اس کی اصل معنویت کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ لاک ڈاؤن سے عموماً مراد علاقہ بندی ہے جو امریکہ میں اس وقت کی جاتی تھی جب کوئی بندوق دھاری لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتا تھا۔ جزوی اور محدود لاک ڈاؤن سے معاشرے کی عمومی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ وبائے کرونا میں بندوق دھاری غیرمرئی ہے، لاک ڈاؤن جہاں بندی ہے، مقصد معاشی عمل کا خاتمہ اور عالمی نظام کی درہمی ہے۔ اس میں اہم سوال یہ ہے کہ مغرب یا بالخصوص امریکہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس نظام کو درہم کرے؟ گزارش ہے کہ اسفارِ دریافت اور فتوحات کے عہد کے آغاز سے یہ عالمی نظام اکیلے مغرب کی ترقی اور غلبے کا ذریعہ اور ضامن، اور باقی غیر سفید فام اقوام کی ذلت اور تاراجی کا زبردست ذریعہ رہا ہے۔ یعنی کولمبیائی عہد کے آغاز سے لے کر آج تک، یعنی گزشتہ پانچ سو سال میں، ایک واقعہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک غیر سفید فام قوم یعنی اہل چین عین اسی سسٹم کے اندر رہتے اور اس کی پاسداری کرتے ہوئے سرمائے اور طاقت سے سرفراز ہوئے ہیں، اور وہ معاشی ترقی جو یورپ نے چار سو سال میں حاصل کی وہ چین نے چار دہائیوں میں حاصل کر کے دکھا دی۔ اس سے پہلے جاپانیوں نے ترقی کا شوق پورا کیا تھا لیکن آزادی جاتی رہی تھی۔ چین کی موجودہ حیثیت عالمی نظام کے مالکان کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے کہ کوئی غیرسفید فام قوم اسی سسٹم کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی طرح ترقی یافتہ ہو جائے اور آزاد بھی رہے۔ تشویش کے ساتھ ساتھ یہ امر ان کے لیے ناقابل قبول بھی ہے۔ وبائے کرونا نے اس کے تدارک کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ امریکہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بلاشرکت عالمی بالادستی کو ازسر نو قائم کر سکے گا یا نہیں۔ موجودہ صورت حال غریب، مقروض اور کمزور معاشروں اور اقوام کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ بھوک جو ان کا قدیمی مسئلہ ہے ان کی بقا کا بنیادی سوال بن سکتا ہے۔

۷۔ کیا کرونا عذاب الہی ہے؟

کرونا کی وبا میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا یہ عذاب الہی ہے؟ عذاب الٰہی کے حوالے سے اتمام حجت کا فتویٰ زیادہ مرغوب ہو گیا ہے، اور اس کا عندیہ ابھی کہیں نہیں ہے۔ اس لیے عموماً اس موقف کا تمسخر کیا گیا۔ شعور اور عمل میں خلط ہماری جدید مذہبی روایت کا مابہ الامتیاز ہے۔ گزارش ہے کہ وحی کے روبرو مخاطبین کے بالعموم دو رویے سامنے آتے رہے ہیں۔ ایک انکار ہے اور دوسرا انکار مع بغاوت۔ جیسا کہ مولانا ایوب دہلویؒ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں کہ نبی بھیجنے کی ایک بنیادی حکمت اقرار اور انکار کی انسانی آزادی کو محفوظ رکھنا ہے، ورنہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ اجرام فطرت کو حکم دے اور وہ اس کا پیغام پہنچا دیں۔ اگر اجرام فطرت اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پیغامبر ہوں تو انسان کو مجالِ انکار نہیں، اور اس کے مکلف ہونے کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی۔ انکار سے مراد ہی اتمام حجت کے مابعد شعوری موقف ہے جو کسی بھی صورت عذاب کو مستلزم نہیں ہے۔ عذابِ الٰہی انسانی انکار کے بعد بغاوت کا جواب ہوتا ہے۔

مذہبی آدمی اس امر کا پورا حق رکھتا ہے کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی مذہبی اور ایمانی تعبیر کرے، اور یہی صورت حال موجودہ وبا کی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ دنیا کی موجودہ حالت ایسی نہیں ہے جسے حق سے کوئی نسبت ہو۔ اگر موجودہ صورت حال انسان کو خوف سے نکال کر خشیت کے احوال میں داخل کر دے اور انسان کا دھیان اپنے رب کی طرف مڑ جائے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ وبائی صورت حال سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے اور اسی سے عافیت اور رستگاری کی امید وابستہ کرنی چاہیے۔ وبا کسی بھی تناظر میں کوئی انعام نہیں ہو سکتی اس لیے سیکولر اور بدمذہب لوگوں کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ایسی کوئی علمی دلیل لا سکیں کہ یہ عذاب نہیں ہے۔ بعینہٖ مذہبی آدمی بھی اپنے ایمانی موقف کو علم میں مدلل کرنے کے وسائل نہیں رکھتا، لیکن اس کا یہ موقف رکھنا کسی بھی پہلو سے قابل اعتراض نہیں ہو سکتا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search