سماجی علوم کا منہجِ علمی اور ان کی اسلام کاری کا مسئلہ: ڈاکٹر عبدالوہاب سوری (مرتبین : حسین احمد، احمد العباد)

 In تاثرات
یہ سطور ڈاکٹر محمد عبدالوہاب سوری صاحب کے ساہیوال میں دیے گئے لیکچرز سے نقل کی گئی  ہیں. ان سلسلۂ لیکچرز میں, جو تین دن پر محیط تھا , سوری صاحب نے سماجی علوم اور ان کے منہج علمی اور عالم اسلام میں اُن کے اسلام کاری کی تحریک کے حوالے سے نہایت علمی بنیادوں پر اپنے ارشادات پیش کیے ہیں.  یہ سطور انہی لیکچرز کے تیسرے دن کی آخری نشست کی گفت گو پر مشتمل ہیں جس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی مکمل گفت گو کا خلاصہ پیش فرمایا ہے.یہ مجلس 2013 میں 29 مئی سے شروع ہو کر 31 تاریخ کو اختتام پذیر ہوئی تھی. تقریر کو مؤثر تحریر میں ڈھالنے کے لئے حسب ضرورت تصرف کو روا رکھا گیا ہے تاکہ قاری تقریر میں پیش آنے والے تکرارت اور مخاطبین کی گفتگو میں دخل اندازی کو تحریر میں پا کر مکدر نہ ہو اور سلسلۂ کلام کی روانی تحریر کی طرز پر برقرار رکھی جائے لیکن حتی الوسع اس سے فحوائے کلام کو متاثر نہیں ہونے دیا گیا۔

سوشل سائنسز  علم کا ایک ایسا منہاج پیدا کررہی ہیں جس کے بعد مذہبی علوم کی ہمہ گیر   قلب ماہیت [comprehensive      replacement]   ممکن ہوجائے گی۔ سوشل سائنسز جب  مسلم معاشروں کے اندر  پختہ ہوجائیں گی ، تو پھر جو بنیادی علمی  سوالات ہیں ان کے جواب کے لیے علماء کی ضرورت نہیں رہے گی۔ علماء کی ضرورت صرف  عبادات وغیرہ کے اندر ہوگی۔ مگر عبادات سے متعلق یہ یاد رکھیں کہ یہ علم کا اور علمیت کا دائرہ نہیں ہے بل کہ یہ رسومات اور rituals کا دائرہ ہے ۔وہ رسومات کا دائرہ ہے ، عبادات کا دائرہ ہے۔ وہ اُس کے اندر ہی رہیں گے ، جس طرح فی زمانہ مذہبِ عیسائیت میں آپ چرچ کے اندر جاکر کچھ دیر کے لیے عبادت کرلیتے ہیں ۔ اِسی لیے سوشل سائنسز کی اسلام کاری  ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔

جب بھی آپ ایک کھلے ذہن کے ساتھ سوشل سائنسز کو پڑھیں گے ، چاہے سوشیالوجی کو پڑھیں ، پولیٹیکل سائنس کو پڑھیں ، اکنامکس کو پڑھیں ، اور پھر آپ  اسی طرح کسی مذہب کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ اس مذہب نے اس معاملے میں بڑی مختصر سی بحث کی ہے اور انہوں نے کتنی تفصیل سے بحث کی ہے۔  یہ احساس ہر بندے کو ہوگا  کہ  یہ جو مذہبی  لوگ ہیں ، ان کے پاس  شایدعلم نہیں ہے ۔  جو پہلا خیال وہ لے کر اٹھے گا ، اگر اس کی عمر کم ہے اور عصبیت زیادہ ہے،یہی  کہے گا کہ  ہمارے مذہب کے پاس ان سوالات کا  کافی  و شافی جواب  نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ سماجی علوم کا منہج علمی[ social       scientific       methodology   ]جز کا علم [ knowledge      of      parts]   ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی کو ہزاروں حصوں میں پہلے بانٹ دیا جاتا ہے پھر ہر حصے کے اوپر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ جز کے علم کی بات کرتے ہیں تو اس کی جو کلیت ہوتی ہے ، وہ گرفت سے نکل جاتی ہے۔ اب یہ کلیت آپ کو کون منتقل کرے گا  ؟ فرض کیا ایک آدمی بہت بڑا اور زبردست قسم کا ماہر معاشیات economist ہے۔  یا اکنامکس میں بہت ساری فیلڈزمیں سے کسی ایک  مثلاًmicroeconomics  میں ماہرہے یا macroeconomics  میں یا econometrics میں ماہر  ہے ۔ وہ ایک مخصوص علم رکھتا ہے۔ کیا وہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے نفسیاتی مسائل کا حل کیا ہے ؟ آپ چلے جائیں econometric کے پاس اور کہیں بھئی میرے نفسیاتی مسائل کا کوئی حل بتا دیں تو  وہ کہے گا ، بھائی   مجھے تو پتا ہی نہیں، میں تو  ایک مخصوص علم کا آدمی ہوں،  مجھے تو یہ بھی نہیں پتا نفس کیا ہوتا ہے  ۔ یہ اس کی علمی تخصیص کا تتمہ ہے اور چونکہ وہ ایک اچھا انسان ہے ، وہ تمہیں دھوکہ نہیں دینا چاہتا اس لئے اس نے تمہیں  ایمانداری سے  بتایا کہ بھئی اس کے لیے تم  کسی ماہر نفسیات کے پاس چلے جاؤ ۔  لیکن جس وقت تم ماہر نفسیات کے پاس جارہے تھے اس وقت جاتے جاتے تمہیں یہ احساس ہوا کہ یار میرے پاس جو پیسہ پڑا ہوا ہے اس کو میں کیسے استعمال کروں؟ تم نے کہا چلو پھر میں ماہر نفسیات کے ہاں جاہی تو رہا ہوں ، ان سے پوچھ لوں گا۔وہاں جا کر آپ کے جو ذہنی خلفشار  تھے ان کے بارے میں بات کرنے کے بعد آپ نے کہا چلو لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں ، یہ جو میرے پاس پیسے ہیں ان کو کہاں  استعمال کروں ؟ ماہر نفسیات کہے گا یہ تو مجھے نہیں پتا اس کے لیے تم اُس ماہر معاشیات  کے پاس جاؤ۔  تو  وہ ہر ایک  جز کا علم آپ کو دیتا ہے، کُل کا علم   وہ آپ کو کبھی نہیں دے سکتا۔

 جب آپ ہر جُز کے پاس جاتے رہتے ہیں تو اجتماعی کُل کا تصور پیدا کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر پورے نظام کے اوپر ہوتی ہے   اور نظام  کے نہ جذبے ہوتے ہیں نہ احساسات ہوتے ہیں۔  ان تمام اجزا کو جو چیز جوڑتی ہے ، وہ مختلف نظاموں کے اندر مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک سوشلسٹ نظامِ زندگی ہوگا تو اس میں علم کی  ترتیب بندی   [to      synthesize      the      compartmentalization      of      knowledge]کی ذمہ داری ریاست کی ہوگی اور اس ریاست کو ہم مطلق العنان [totalitarian] ریاست  کہتے ہیں۔ وہ طاقت ور ریاست، جومختلف اجزا کے اندر علم بکھر گیا ہے، ان سب کو یکجا کرکے ریاستی پالیسیوں کی صورت میں زبردستی لاگوکرے گی۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ جس حساب سے  وہ لاگوکرے وہ غلط ہوجائے اور پالیسی فیل ہو جائے۔ تو وہ مطلق العنان ریاست دوسری پالیسی، پھر تیسری پالیسی ، پھر چوتھی پالیسی  لاگو کرے گی ۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو  بہت سارے نقصانات ہوتے ہیں۔ پتا چلتا ہے،  ایک ایسی پالیسی بنائی گئی جس کے نتیجے میں انسان کے معاشی معاملات تو  بہترہوگئے ، سماجی حالات تو بہتر ہو گئے لیکن نفسیاتی طور پر سب تباہ ہو گئے۔ کیوں ؟ کیونکہ سٹیٹ نے مجموعی  ترکیب کر کے ایک پالیسی بنا دی اور ایسا علم جو  بہت ساری شاخوں میں  بکھر گیا تھا  اس کو لے کر مجموعی  یا اجتماعی علم میں ، حل کر کے اس کی پالیسی بنا کر پورے معاشرے پر لاگوکردیا۔ اس جبرکے نتیجے میں بہت ساری چیزوں میں مسائل حل ہو گئے لیکن بہت ساری جگہوں پر کمی رہ گئی ، کجی رہ گئی جس کی وجہ سے لوگوں کو نقصان پہنچ گیا۔ دوسرا  طریقہ یہ ہوسکتا  ہے کہ اس بکھرے ہوئے علم  کو  یکجا کرنے کی ذمہ داری مارکیٹ کو  دے دی جائے  کہ مارکیٹ اس کی ترکیب کرے گی کہ کتنے لوگوں کواس کی  ضرورت ہے۔ اس کی ترویج کا نظام کس بنیاد پر ہوگا ؟ یعنی کتنا آپ کی جیب میں پیسہ ہے۔ اس کی بنیاد پہ آپ کے  مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کی یکجائی کی ذمہ داری جس نظام  کے پاس ہوگی وہ ریاست نہیں بلکہ مارکیٹ ہوگی اور مارکیٹ کے اندر  حتمی رائے  کون متعین کرتا ہے ؟ The      effective      demand      is      determined      by      the      one      who      has      capital۔ مارکیٹ  میں آخری بولی  پیسے والا  لگاتا ہے۔  جس کے پاس پیسہ نہیں ہوتا اس کی زندگی کے بہت سے دائرے  نامکمل رہ جاتے ہیں۔  مثلاً اپنی جمالیاتی تسکین کے لئے، آپ  اعلی شاعری ،اعلی درجے کا ادب ، مصوری کے فن پارے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر جگہ  دستیاب تو ہوں گے۔ لیکن اس کے لئے آپ کے  پاس اچھا خاصا پیسہ ہونا چاہئے ورنہ  وہ آپ کو نہیں ملیں گی۔ اسی طرح بہت سی چیزیں آپ کے دسترس سے باہر ہوں گی۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً یہ تقسیم شدہ علم  تو میسر ہے لیکن اس کو ریاست بھی آپ تک  کچھ پالیسیز کے ذریعے پہنچانے کی کوشش کرے گی اور کچھ آپ اپنے مارکیٹ کے ذریعے ان تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ تو بنیادی طور پر یہ جو اجزا کا علم ہوگا وہ آپ کو ملے گا تو لیکن اس کی یکجائی کی صلاحیت نہ آپ کے اندر ہوگی نہ ہی کسی دوسرے شخص کے پاس ۔ بلکہ ایک  ایسا نظام  ان کو ترکیب کرکے آپ کو کل کی صورت میں پیش کر رہا ہوگا جس کے نہ جذبے ہوں گے نہ احساسات۔نظام انسان نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس مذہب  کل کا علم ہوتا ہے۔ مذہب کے اندر حقیقت کو ا س طرح سے اجزا  کے اندر تقسیم نہیں کیاجاتا۔ اس کے اندر ایک ہی چیز علمیت سے بھی جڑی ہوئی ہوتی ہے، حقیقت سے بھی جڑی ہوتی ہے، اخلاقیات سے بھی۔ آپ بتا نہیں سکتے کہ کب اخلاقیات  شروع ہوگئیں، کب علم شروع ہوگیا، کب  مابعد الطبیعیات شروع ہوگئیں۔  وہ ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہوتے ہیں۔ ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب آپ ان کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں آپ اس کی کلیت کو تہس نہس کردیتے ہیں ۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ  تجزیہ روحِ  شئے کے لئے پیغامِ مرگ ہے [Essence      of      a      thing      destroy      during      analysis] سماجی علوم  کےمنہجِ علمی کا جب آپ مذہب کے اوپر اطلاق کرتے ہیں تو مذہب کو آپ  سماجی علوم  کی طرح  خانوں میں بانٹنا    شروع کردیتے ہیں۔ یعنی آپ سوشل سائنسز کا چشمہ لگا کر اسلام کودیکھیں گے۔ مذہب  کی جگہ اب آپ اسلام کردیں ۔تو آپ نے اسلام کو  سماجی، سیاسی،ثقافتی اور معاشی  قسم کے مختلف خانوں میں یا اجزا میں بانٹ دیا۔اب ہر جز   کا دوسرے جز سے  کیاتعلق ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا۔  سماجی علوم  تو اس پارہ پارہ اسلام کی وجہ ہیں۔ وہ تو فیصل نہیں ہوسکتے۔ سٹیٹ کا حال آپ  دیکھ چکے۔  کوئی نہ کوئی نظام تو چاہئے ہوگا۔ اور وہ نظام اسلامی ہے۔ لیکن نظام تو اسلامی نہیں ہے تو اب  آپ الٹا سیدھا تگڑم لگائیں گے۔ 

ہمارے فلسفے والوں کے ہاں کہتے ہیں کہ جو جز کی خصوصیات ہوتی ہیں،  وہ کل کی خصوصیات نہیں ہوتیں۔ کل کی خصوصیات الگ ہوتی ہیں، جز کی خصوصیات الگ ہوتی ہیں۔  مثلاً ایک انسان اپنے کل میں انسان ہوتا ہے  فرض کیا انسان کے اعضاء الگ الگ کر لئے جائیں تو کیا اس سے آپ کو وہی تجربہ ملے گا جو پورے انسان کا مل رہا ہے؟ پھول کو جب آپ دیکھتے ہیں تو پھول اپنی کلیت کے اندر جو تجربہ آپ کو دیتا ہے  کیااپنے جز میں وہی تجربہ دیتا ہے؟ کیا وہ پھول بھی ہوتا ہے؟ ایک گلاب ہے۔ آپ اس کے اجزا الگ الگ کرلیں۔ پتیوں کو الگ کرلیں، مسندِ گل[calyx]الگ کرلیں، کاسۂ گل [corolla]  الگ کرلیں،نردان [androecium] الگ کردیں تو کیا ان  کو دیکھ کر وہی  تجربہ ملے گا جو سالم  گلاب کو دیکھ کر ملتا ہے؟ کیا یہ [اجزا] آپ کو اسی طرح متاثر کریں گے جس طرح یہ گلاب متاثر کرر ہا ہے۔تو جب آپ سماجی علوم کے منہجِ علمی کا اطلاق مذہب کے اوپرکرتے ہیں  تو آپ پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ آپ مذہب کو اجزا میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں   اس کے نتیجے میں  مذہب کی روح نکل جاتی ہے۔ مذہب تو رہتا ہے ۔ آدمی کافر نہیں ہوجاتا لیکن  اپنی روح سے خالی ہوجاتا ہے۔

 دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو جو تجربہ ہوتا ہے وہ مذہبی تجربہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ  سماجی سائنسی تجربہ  ہوتا ہے۔ مذہبی تجربہ ایک الگ چیز ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ [Knowing      the      path      and      walking      the      path      are      two      different      things]۔ راستے کو جاننا  اور اس راستے پہ چلنا، یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ایک آدمی کو ایک راستے کا پتہ ہے یہ ایک تجربہ  ہے۔ لیکن اس  راستے پہ چلنا  ایک بالکل  دوسرا اور الگ  تجربہ ہے۔بعینہ ایک تجربہ اسلام کا اس کی کلیت میں ہوتا ہے۔ پھراسلام پرسماجی علوم کے منہجِ علمی ،   جو کہ اٹھارویں صدی کے اندر پیدا شدہ ایک مخصوص ٹیکنالوجی ہے  ، کااطلاق کرنے کے بعد اس کے تجزیے  کے نتیجے میں جب آپ اس کو مختلف خانوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ یعنی اس کی سیاست ، سماجیات، جمالیات غرض ہر چیز کو الگ الگ کردیتے ہیں تو اس الگ الگ کردینے کے نتیجے میں آپ کو جو کچھ ملتا ہے وہ مذہبی تجربہ نہیں ہوتا۔ آپ کومذہبی تجربہ نہیں ملتا، بلکہ مذہب ایک ایسا سماجی منہج علمی بن کے رہ جاتا ہے جس کے اندر ہر چیز اپنے اجزا میں منقسم ہے۔ جس میں نہ جذبے ہیں اور نہ احساسات ہیں۔ اور سب سے اہم  بات کہ  روحانیت بالکل نہیں ہے۔  اس کے اندر سب کچھ رہنے کے باوجود اس کی روح  نکل جاتی ہے۔ایک بڑا مشہور آدمی ہے اس کا نام ہے برگساں، ہنری برگساں، وہ  کہتا ہے کہ جو کل کا علم ہوتا ہے وہ جز کا علم نہیں ہوتا۔ جز کا تجربہ الگ ہوتا ہے، کل کا تجربہ الگ ہوتا ہے۔ کل کو آپ کو پورا کا پورا جاننا پڑتا ہے۔ پھر کل کو پورا کا پورا جانتے ہوئے بھی اگر تم نے اس کو اجزا میں بانٹ دیا ہے،  تو تم اس کے جوہر کو کھودیتے ہو۔ اس کی روح مر جاتی ہے۔ اور کل کو جاننے کے لئے کل ہی کو پورا کا پورا جانا جاتا ہے۔ اگر آپ نے جز کو جان لیا تو جز کا حاصل ہمیشہ کل نہیں ہوتا۔ مثلاً H20  پانی کا فارمولا ہے۔ اب پانی کی بنیادی خصوصیت کیا ہے؟ بے رنگ و بے بو ہو؟ لیکن بے رنگ و بے بو تو  یہ شیشہ بھی ہے۔ تو یہ پانی ہے؟ نہیں! وہ مائع ہو؟ لیکن ہر مائع تو  پانی نہیں ہوتا۔ پارہ مائع ہوتا ہے لیکن دھات ہے، پانی نہیں۔ پانی کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گیلا ہوتا ہے۔ اس میں نمی ہوتی ہے۔ جس چیز میں بھی نمی [ moisture ] ہوتی ہے اس میں پانی ہوتا ہے۔  اب دیکھیں۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن دونوں خشک گیسیں ہیں۔  ان دونوں کا حاصل بھی خشک  ہونا چاہئے۔ عقل یہی کہتی ہے کہ خشک اجزا کا مجموعہ بھی خشک ہونا چاہئے ۔لیکن پانی جو ان دونوں کا مجموعہ ہے وہ تو  گیلا ہوتا ہے۔ جب بھی ہائیڈروجن  آکسیجن کے ساتھ دو ایک کے تناسب میں ملیں گے ان میں ایک نئی خصوصیت پیدا ہوجائے گی۔ جو اجز امیں نہیں تھی۔ بعینہ جب آپ سماجی علوم کے منہجِ علمی کا اطلاق اسلام پر کرتے ہیں تو اسےٹکڑوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ہر ٹکڑے کا ایک ماہر  بن کے بیٹھ جاتا ہے۔اس کے اندر سے اس کی روح  نکال لیتا ہے۔اس کے نتیجے میں کیا مذہب  پھیلے گا ؟ اسلام پھیلے گا؟

ویسے اسلام کا بنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟ اسلام کیا اس لئے  آیا ہے کہ آپ نوکری وغیرہ کرو۔بے شک  اسلام لانے کے بعد نوکری  بھی کرلو۔لیکن  اسلام اس لئے آیا ہے کہ جب آپ مریں تو خدا آپ کو بخش دے۔ اس کو لوگوں نے بڑا  ہلکا لیا ہوا   ہے۔  کیا ہم لوگ سب جنت میں جانے والے ہیں؟ کیایہاں پرکھیل ہورہا ہے کہ چلو جنت تو جانا ہی جانا ہے۔ اب بس یہ فکر کرو کہ انڈسٹری کیسے چلائیں گے۔  معاشی سورما  کیسے بنیں گے ۔ براعظمی طاقت کیسے بنیں گے ۔یہ مذاق کی بات نہیں ہے۔ مذہب کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان ہوجائیں اور وہ اپنی کل کی بنیاد پر ہی مسلمان کرتا ہے۔ اگر آپ نے کسی کو بتایا کہ اسلام کے اندر تو ماشااللہ جی ہم نے یہ جاب کا بہترین نظام بنایا ہے۔ تو کیا وہ یہ  سوچ کر کہ اچھاتوان کے پاس جاب کے یہ طریقے ہیں،  یہ دیکھ کر مسلمان ہوجائے گا۔ اس طرح کبھی کوئی مسلمان نہیں ہوگا۔  اگر اس طرح کوئی  مسلمان ہو تو  آکے میرے  منہ پر تھوک دینا کہ آپ ایسے ہی لغویات بک رہے تھے وہ تو اسی طرح متاثر ہو کر اسلام لے آیا ۔ ہمارے استاد بتایا کرتے تھےکہ ایک کان کن تھا۔ انگلش مائنر مومنٹ میں تھا اور بڑا  شدت پسند قسم  کا آدمی تھا۔ وہ ایک نومسلم شیخ کے پاس گیا اور کہا  کہ حضرت ،میں سالہا سال سے  کان  کنوں کی بہتر زندگی کے لئے جدوجہد کررہا ہوں ۔ میں پہلے لبرل ہوا، پھر میں سوشل ڈیموکریٹ ہوا، پھر میں لیفٹ کا ہوگیا۔ لیکن مجھے پتہ چلا کہ کان کنوں کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ لہذا اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میں مسلمان ہوجاتا ہوں تو میں آپ کے پاس اسلام قبول کرنے کے لئے  آیا ہوں۔ وہ شیخ بھی فرنگی ہی تھے۔ انھوں نے کہا اس لئے تم آئے ہو؟ بھاگ جاؤ یہاں سے۔ اسلام کو کچھ نہیں پتہ کہ کان کنوں کے مسئلے کیسے حل ہوں گے۔ اس بنیاد پر تمھیں مسلمان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔ وہ بڑا پریشان ہوا ، بڑا غصہ آیا کہ یہ کس طرح کا آدمی ہے؟ بڑا بدتمیز ہے۔ میں مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں اور اس نے مجھے ڈانٹ کر بھگا دیا ، میری تذلیل کی ۔ خیر  وہ چلا گیا لیکن اس نے بعد میں جا کے سنجیدگی سے اس مسئلہ کو دیکھنا شروع کیا۔پھر اس نے پڑھنا شروع کیا۔ چونکہ وہ ایک اچھا انسان تھا اور انسانوں کا خیر خواہ تھا۔  تو  پانچ، چھ سال کے بعد دوبارہ حضرت کے پاس آیا  اور کہا کہ اب میں اس لئے مسلمان ہونے آیا ہوں کہ جب میں مرجاؤں تو خدا مجھے معاف کردے۔ بولے ہاں! ماشااللہ اب تم مسلمان ہوجاؤ اور ہاں مسلمان ہونے کے بعد جو تم سے ہوسکے کان کنوں کے مسئلے کے حل کرنے کے لئے وہ کرو۔تو بنیادی طور پر مذہب کا جو کام ہوتا ہے وہ یہ  ہوتا ہے کہ بس اللہ معاف کردے۔

سماجی علوم  کی اسلام کاری کی یہ پوری تحریک پہلا کام تو یہ کرتی ہے کہ اسلام کو اجزا  میں بانٹ کرکے اس کی روح  نکال لیتی ہے۔ اس کو اس کی روحانیت سے محروم کردیتی ہے ۔ دوسرا یہ ہوتا ہے کہ ایک جز  کا دوسرے سے تعلق کا بالکل پتہ نہیں چلتا۔ جیسے اکنامکس کا سوشل تھیوری کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ حضرت کو بالکل نہیں پتا۔ ان کو بالکل نہیں پتا کہ یہ جو میں کرنے جا رہا ہوں اس کے بعد جو سوشل تھیوری کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ اس میں کیا ہوگا۔ انھوں نے بس تگڑم  لگادیا ۔ اب ان دونوں کے درمیان میں جو تضادات آرہے ہیں اس کو رفع کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ اس خلا کو کون پُر کرے گا۔  اس کو فلانتھراپسٹ پُر کرے گا۔ اور جب فلنتھراپسٹ پُر کریں گے تو وہ بھی اپنے اپنے تگڑم ہی لگائیں گے۔ اس کے نتیجے میں جو چیز نکلے گی اس میں صرف نام کو ہی اسلام  ہوگا، اسلام کی روح نہیں ہوگی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسلام لانے کے بعد لوگوں کے معاشی مسائل حل نہیں کرنے چاہئیں اور لوگوں کے نفسیاتی اور سیاسی وغیرہ  مسائل حل نہیں کرنے چاہئیں۔ میں صرف آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ سماجی علوم کا منہجِ علمی ایک مختلف تاریخی تناظر میں تشکیل ہوا ہے، وہ بھلےایک نظام زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ ہو مگر وہ  ہر نظام زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ وہ غیر اقداری بھی نہیں ہے اور اگر آپ اس کو اسلام کے اوپر منطبق کرتے ہیں تو جب اسلام اس  منہج کے شرائط  کی پابندی کے ساتھ پرکھا جائے گا تو ہوسکتا ہے کہ آپ کچھ ادارے بنا لیں مگر ان اداروں کے نتیجے میں کل کی خصوصیات آپ کو کبھی نہیں ملیں گی۔ جز کی خصوصیات ضرور ملیں گی۔ یہ ممکن ہے کہ آپ تھوڑے بہت کاروبار بہتر کرلیں، تھوڑے بہت مسائل حل کرلیں لیکن جو کل کی خصوصیت ہوگی وہ ختم ہوجائے گی۔ اور کل کی خصوصیت کیا ہے کہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ لوگ جنت میں چلے جائیں۔ تو  یہ جوبنیادی سوال ہے  مسلمان ہونے کا یہ سماجی علوم کے منہجِ علمی میں غیر متعلق ہوجاتا ہے ۔

آج کل سوشل سائنسز کا زور ہے ، اسی لئے ہم نے ا س پر خصوصی توجہ دی۔ اس کی علمیت بڑی واضح ہے۔ لیکن جب آپ سوشل سائنسز کا اطلاق کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب، صرف اسلام نہیں  کوئی بھی مذہب،  کے کل کو آپ جز میں تبدیل کردیتے ہیں اور اس کی روح کو نیست ونابود کردیتے ہیں۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ اس سے اتفاق کریں۔ یہ میرا خیال ہے اور  میں کوئی عالم دین نہیں ہوں کہ حکم لگا ؤں۔ میں حکم نہیں لگا رہا۔  بس  اس مسئلے کی  نشاندہی کردی ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ سوشل سائنسز نہ پڑھیں۔ ضرور پڑھیں مگر اس کی علمیت کو پہچانیں۔اس کا جو منہجِ علمی ہے اس کی اپنی تحدیدات  ہیں۔ ہر  منہجِ علمی  ہر کام نہیں کر سکتی۔ جب  ایک منہجِ علمی کوئی کام سرانجام  دے ہی نہیں سکتی  لیکن آپ اس سے وہ کام لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یا تو منہج  کو نقصان پہنچتا ہے یا جس  پر آپ اس کا اطلاق کرتے ہیں اس کا نقصان ہوجاتا ہے۔  لیکن سماجی علوم کامنہجِ علمی  اتنا لچکدار ہے  کہ اس کا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ جس پر اطلاق کر رہے ہیں بس اس کا نقصان ہوگا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search