عقل،ذہانت اور سرمایہ داری: مکرم محمود

 In تاثرات

ایرک فرام[ Neo-Freudian   psychoanalyst   and   critical   theorist (1900-1980)]’عقل‘(Reason) اور’ذہانت‘ (Intelligence)میں فرق کرتا ہے۔’ عقل‘کو یہاں ہماری اصطلاح میں ’شعور‘یا’عقل کلی‘کے اور  ’ذہانت‘کو عقل جزوی کے مترادف کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔(اگرچہ یہ ترادف من بعض الوجوہ ہے کیونکہ ہماری اور مغرب سے آئی ہوئی اصطلاحات الگ الگ تہذیبی سیاق و سباق رکھتی ہیں)۔’عقل‘ اس کے نزدیک وہ ملکہ ہے جو انسان کو اشیاء کی حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ صورت کا پردہ چاک کر کے حقیقت کو پا لینا’عقل‘ کے ذریعے ہی ممکن ہے جبکہ ’ذہانت‘ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کچھ تدابیر گھڑتی ہے۔ مقصد اپنی ذات میں کیا ہے اس سے’ذہانت‘ کو کچھ سروکار نہیں۔’ذہانت‘ کا مقصد انسان کا حیاتیاتی بقاء (biological  survival)ہے۔ زندگی کے معنی کیا ہیں؟ حقیقت کیا ہے؟ یہ سوالات ’ذہانت‘ کے دائرے سے باہر ہیں۔ ’ذہانت‘ چیزوں کو استعمال کرنا اور برتنا سکھاتی ہے ان کے اندر معنویت کو تلاش نہیں کرتی۔ ’عقل‘ حقیقت اور معنی کی جستجو کرتی ہے اور صورت پر قانع نہیں رہتی۔ یہ فرق جو ایرک فرام نے’ذہانت‘ اور’عقل‘ کے درمیان کیا ہے جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

جدید سرمایہ دارانہ نظام ’ذہانت‘ کو فروغ دیتا ہے اور’عقل‘ کو سلا دیتا ہے۔’ذہانت‘ کا فروغ سرمایہ دارانہ اہداف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ’نظام‘(System)کو خطرہ’ذہانت‘ سے نہیں ’عقل‘ سے ہوتا ہے۔ ’ذہانت‘’نظام‘ کو ٹھیک ٹھیک اورہموارچلانے کیلیے ناگزیر ہوتی ہے اور یہ جاننے کے قابل نہیں ہوتی کہ آیا ’نظام‘فی ذاتہ صحیح یا عقلی ہے؟’نظام‘  جن بنیادوں پر کھڑا ہے وہ بنیادیں کن قدروں پر استوار ہیں؟ وہ قدریں اپنی کیا ما بعد الطبیعیاتی اساس رکھتی ہیں؟ وہ قدریں انسان کو اس کی حقیقت اور خدا سے قریب کرتی ہیں یا نہیں؟   ’عقل‘’نظام‘ کو چیلنج کرتی ہے، اس کی بنیادوں کو پرکھتی ہے۔ اس لیے جدید سرمایہ دارانہ نظام ’عقل‘ کو دشمن سمجھتا ہے اور ’ذہانت‘ کو ہی مطلوبِ اعلیٰ و اصلی قرار دیتا ہے۔

اگر اپنے تعلیمی نظام پر غور کیا جائے تو سارا نظام  ’ذہانت‘ کی سرپرستی(یہ بات بھی اب کہاں رہ گئی) اور عقل و شعور کو دبانے پر کھڑا نظر آئے گا۔ جو چیز جدید تعلیمی اداروں میں critical   thinkingکے نام سے سکھائی جاتی ہے اول تو وہ اجزاء کا تنقیدی جائزہ ہوتا ہے کْل کا نہیں۔ اجزاء کا تنقیدی تجزیہ کل کو ہی مزیدrelevant اورeffective بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ اس تنقیدی سوچ کا رخ اگر کسی کلی فکر کی طرف ہو بھی جائے تو وہ غالب کلی فکر نہیں ہوتی بلکہ وہ کلی فکر ہوتی ہے جس کو دیس نکالا دے کر جدید سرمایہ دارانہ فکر و تہذیب غالب آئی۔

ہر تہذیب اپنا تصورِحقیقت اور تصورِ علم رکھتی ہے۔ تصورِ علم تصورِ  حقیقت کے ساتھ ایک اساسی ربط رکھتا ہے۔ علم نام ہے حقیقت، صورت اور حقیقت کے باہمی ربط اور ان احوال کو جاننے کا  جو حقیقت سے تعلق کے نتیجے میں انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور ان اعمال کے ادراک کا جو ان احوال کا فطری نتیجہ ہیں۔جدید سرمایہ دارانہ فکر اپنا اصل الاصول سرمایہ (Capital)کو قرار دیتی ہے۔ بس پھر علم وہی ہے جو سرمائے کے حصول کو ممکن بنائے، وہی احوال قیمتی ہیں جو انسان کے سرمائے سے تعلق کا نتیجہ ہیں اور وہی اعمال لائقِ تحسین ہیں جو انسان اور سرمائے کے درمیانی فاصلے کو کم کریں۔ سرمایہ آزادی کی مجسم شکل ہے۔ آزادی(Freedom) ایک مجرد تصورہے۔تجریدیت(Abstraction) اپنے اندر ایک کشش تو رکھتی ہے لیکن قابلِ ادراک نہیں ہوتی۔ آزادی کا سرمائے کی صورت اختیار کرنا تجرید سے تجسیم(personification) تک کا سفر ہے۔

خوگرِ پیکرِ محسوس ہے انساں کی نظر

 

مغرب میں زمانہ روشن خیالی میں دیے گئے تصورات تجریدی تھے۔  ’عقل‘(Reason)،  ’آزادی‘(Freedom)، ’رستگاری‘(Emancipation) ایسے تصورات ما بعد الطبیعیاتی تجرید(metaphysical   abstraction) تو نہ رکھتے تھے کیونکہ ما بعد ا لطبیعیاتی تصورات کے متبادل کے طور پر ہی تو ان کو پیش کیا گیا تھا مگر ایک گونہ تجرید کے حامل تو تھے ہی۔ گویا یہ ’تنزلات‘ کی ابتداء تھی اورا بھی ’’Pure   matter‘‘ تک کا سفر ہونا تھا۔ اس کے بعد کی ساری کہانی داستانِ زوال ہے۔ اب بس سرمایہ ہے اور اس کے متعلقات ہیں اور یہی انسان،اقدار،اشیاء،علوم اور نظریات کی درجہ بندی اور اہمیت کا تعین کرتے ہیں۔

ذہانت اور عقل کے مابین فرق کی وضاحت کے لیے ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ کسی corporationیاorganization میں اپنےboss یا اپنے بڑے کی بات کی ہر حال میں تعمیل بجا لانی ہوتی ہے۔ وہ بات یا وہ کام جو آپ کو دیا جا رہا ہے چاہے آپ کے لیے یا organization/corporation کے لیے نقصان دہ ہو[یعنی’عقل‘ سے اس کا نقصان دہ ہونا معلوم ہوتا ہو] اس بات کو پورا اور اس کام پر عمل آپ کو  اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کرنا ہی ہے اوران تمام ذرائع کی اپنی ’ذہانت‘ کے بل بوتے پر کھوج لگانی ہے جو دیے گئے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بہترین ہوں۔کم وقت [Time]اور کم قیمت [Cost]کا لگنا وہ بنیادی پیمانہ ہے جس پر کسی ذریعے کے مناسب یا نا مناسب ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔ بس ’ذہانت‘ کا کام یہ ہے کہ وہ اس ذریعے کو تلاش کرے۔ مقصد کی عقلی اور اقداری حیثیت کیا ہے اس کا تعین اس کے دائرہ کار سے خارج ہے۔جس طرح کسی انسان کی شخصیت میں خود تباہی رویہ کا پروان چڑھنا کچھ نفسیاتی مسائل کا شاخسانہ ہوتا ہے اسی طرح کوئی تہذیب اپنے تہذیبی انفس میں بگاڑ کے باعث اس رویہ کا شکار ہوکر تباہی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔یہ کہنا مجرد نظری کا نتیجہ نہیں ہو گاکہ جدید سرمایہ دارانہ فکر و تہذیب self   destructiveرویہ کا شکار ہو چکی ہے ا ور یہ تباہی صرف اس تہذیب کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ہے کیونکہ عالمگیریت اس تہذیب کا ایسا وصف ہے جو اسے پچھلی تہذیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ماحولیاتی بحران (Environmental   crisis) اور اس کے پیچھے سرمایہ اور ٹیکنالوجی کا گٹھ جوڑ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ مغرب کے علمی حلقوں میں معروف ہے۔ماحولیاتی بحران اصل میں زائد از ضرورت اور ہر لمحہ بڑھتی ہوئی پیداواری رفتار( ever   increasing   pace   of   production) کا نتیجہ ہے۔ اہلِ مغرب میں بہت سوں کا اعتماد ابھی تک اس سرمایہ اور ٹیکنالوجی کے گٹھ جوڑ پر ہے کہ جو مسئلہ کا مبدا ہے حل بھی وہیں سے آئے گا۔آج کل سرمایہ کا ایک بڑا رخ اس سائنسی ریسرچ کی جانب ہے جس میں ماحولیاتی بحران کا حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ ایک حل تو کوپن ہیگن United   Nations   Climate   Change   Conference   2009میں پیش کیا گیا کہ پیداواری رفتار کو ایک خاص حد تک کم کر دیا جائے مگر اس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ضروری تھااس لیے اکثر سربراہانِ حکومت اور سرمایہ داروں کی طرف سے اسے ناقابلِ عمل قرار دے دیا گیا۔ گویا ایک ایسے حل کی تلاش ہے کہ سرمایہ داری بھی خوب پنپے، ٹیکنالوجی بھی اپنی رفتار بلا خیز سے دستبردار ہونا قبول نہ کرے اور ماحولیاتی بحران سے نجات بھی حاصل ہو جائے یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ایسا کوئی قابلِ ذکر حل سردست معدوم ہے اور عدم سے وجود پر تو خدا ہی قادر ہے۔ توعرض ہے کہ جدید تہذیب کا یہself   destructiveرویہ عقلی نہیں غیر عقلی (irrational) ہے اور یہ رویہ جس فکر کی دین ہے اسی فکر کو پروان چڑھانے اور اس کی تعبیر و تشریح میں بڑوں بڑوں کی  ’ذہانتیں‘ صرف ہو رہی ہیں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search