احمد جاوید صاحب کا ’’معذرت نامہ‘‘۔ حسین احمد

 In تاثرات

محترم احمد جاوید صاحب کی حالیہ تحریر آہستہ آہستہ ان کی  ’’قطع و برید شدہ‘‘ ویڈیو کلپ جیسی اہمیت اختیار کرتی اور متنازعہ بنتی جارہی ہے ۔یہ تحریر آئی تو ہم نے بھی اس قلبی واردات  سے مزین متن  کا مطالعہ کیا۔ کسی بڑے آدمی کی بات، باتوں کی بات  ہوتی ہے اور اس کے اثرات بھی اُس متن کی بلاغت جیسی وسعت کے ساتھ احساس کی گہرائی لیے ہوتے ہیں۔اس اقرار کے بعد  ہم اس معذرت نامہ پر اپنا احساس اور کچھ سوالات  پیش کرتے ہیں۔

جاوید صاحب کی مذکورہ تحریر یہاں پڑھیں۔

جب کسی تہذیب پر زوال آتا ہے تو وہ زوال ہمیشہ کلی ہوتا ہے اور معاشرے کے ہر ہر جز پر اپنے انمٹ نقوش  مرتسم کرتا ہے۔ زوال یافتہ  تہذیب کا جو حصہ قطب نما کی حیثیت  رکھتا ہے وہ ان اثرات سے دوسروں کی بہ نسبت  زیادہ گھائل ہوتا ہے۔جب زوال مسلم معاشرے کی تقدیر بن کر آیا تو وہ بھی ہمہ جہت، کلی اور تہذیب کے  ہر خلیے  تک اپنی رسائی رکھنے والا تھا اور جو تہذیبی حصہ ہمارے لیے  مقتدا اور قطب نما تھا وہ زیادہ سنگین حالات سے گزرا۔ لہذا جب زوال کلی ہے تو کوئی بھی غور و فکر کرنے والا آدمی کبھی بھی تہذیبی تشکیل کے ایک حصے کو ساری بدتمیزی کی بنیاد، سارے فساد کی جڑ اور ساری سرکشی کا بنیاد گزار قرار نہیں دے سکتا۔

محترم احمد جاوید  صاحب کے معذرت نامے کے واضح طور پر دو حصے ہیں۔ پہلا  حصہ  ’’معذرت‘‘ اور دوسرا  ’’تنقید‘‘ ۔دوسرے حصے کو پڑھنے والا اس  پوری تحریر سے  تنقید کے سوا  کم ہی کچھ پائے گا۔  پہلے حصے کے درست ہونے میں کسے شک ہو سکتا ہے لہذا  ہم جاوید صاحب کی بات پر صدقنا و امنا کے رجز کے ساتھ دوسرے حصے کی جانب بڑھتے ہیں۔

ہماری گزارش ہے کہ تنقید کے دو مقاصد ہوتے ہیں :وہ اشیا کو سمجھنے  سمجھانے اور پھر  سدھارنے کی طرف راجح ہوتی ہے۔ یا اس کا مقصد استرداد، رد اور نفرت کے جذبات کا ایک اظہار ہوتا ہے اور اگر  تنقید کے ان  دو منہاجوں کو پاٹنے والا ایک بڑا اہل علم ہو تو ہر دو اشیا یعنی مدح و ذم کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلکنے لگتا ہے اور خرابی کا باعث بنتا ہے۔

محترم احمد جاوید صاحب کی تحریر پر تنقید کا رنگ  ہر لحاظ سے نمایاں ہے ۔اس بات سے اختلاف کرنے کا حق درست طور پر احمد جاوید صاحب ہی کو ہے،مگر وہ اس سے دستبردار ہو چکے ہیں۔اس تحریر میں احمد جاوید صاحب نے  ’’مذہبی طبقے‘‘کی اخلاقیات اور علمیت پر اپنی رائے بیان کی ہے ۔ہمیں اس رائے کے طرزِ  اظہار  سے اختلاف ہے اور یہ طرزِ اظہار   کئی اعتبار سے قابلِ گرفت ہے۔

احمد جاوید صاحب نے پاکستان کے علما کے لیے ایک یورپی اصطلاح  ’’مذہبی طبقہ‘‘ استعمال کی ہے اور پھر یورپ کے ساتھ اس کی جو تطبیق  کی ہے وہ اپنے  اندر نہایت  خطرناک  معانی رکھتی ہے۔  کیا احمد جاوید صاحب واقعتاً اسلام  کی مذہبی روایت اور کلیسا کی تاریخ کو ایک ہی سمجھتے ہیں ؟   مکرر عرض ہے کہ یہ بیان اپنے اندر ان کے اس متن متین کی  بلاغت کی گہرائی سے زیادہ گہرائی اور احساس کی وسعت سے زیادہ حدود اربعہ رکھتا ہے ۔اگر احمد جاوید صاحب کی طرح کے اہل علم و ادب یہ باتیں ارشاد فرمائیں گے تو پھر کسی دوسرے سے اعلیٰ علمی گفتگو کی امید کارِ  لاحاصل ہے۔

محترم احمد جاوید صاحب نے اس تحریر میں ایک بات کی سخت شکایت کی ہے اور پہلے بھی اس طرح کی شکایت کر چکے ہیں کہ علما میں رد الحاد کے لیے بڑی سطح کا عالم پیدا نہیں ہوا۔ ہماری گزارش ہے کہ کیا الحاد کی کوئی علمی سطح بھی معلوم ہے علم کی دنیا میں ؟ کہ مطالبہ کیا جائے کہ ہمیں اس سطح کا جواب بھی چاہیے۔ ہمارے نزدیک جو علمیت فیمینزم میں پائی جاتی ہے عین اسی سطح کی علمیت جدید الحاد میں موجود ہے۔آخر مغرب نے ایسا کون سا بڑا ملحد پیدا کیا ہے کہ جسے مغرب خود بھی اپنے الحاد کا نمائندہ کہے۔ احمد جاوید صاحب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جدید الحاد ہر گز علمی نہیں ،بلکہ کلچر اور فیشن کی چیز ہے مگر وہ یہاں پر -انہی اہل مدرسہ و علما کی صحبت کے اثرات کو بروئے کار لا کر جن کی صحبت میں انہوں نے متنازعہ کلپ بھی ریکارڈ کرایا ہے-  ایک فتوی بھی دے چکے ہیں۔ہماری گزارش ہے کہ جتنا اُس کا غلط ہونا بدیہی ہے اتنا ہی  اس کا وزن اہلِ تجدد کے پلڑے میں جانا بھی  سامنے کی چیز ہے۔

اس زوال کے دور میں ’’اباحت‘‘ کے فتوے ہوں یا  غزالی و رازی و مسکویہ کا مطالبہ کرنا،  اپنے تمام تر خلوص کے باوجود ایک خاص معاشرتی گروہ کی  حمایت ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی  وہ  ’’خدا کو نہ مان سکنا‘‘ ایسے  دین محمدی کی جڑ کاٹ دینے والے مواقف کا اظہار کر کے یہ حمایتی فعل انجام دے چکے ہیں۔

ہماری یکے از گزارشات یہ بھی ہے کہ جب احمد جاوید صاحب جیسے اہل علم سر عام ایک موقف کا اظہار کریں گے تو صرف ایک علمی رائے یا اخلاقی موقف نہیں رہے گا بلکہ معاشرے میں تعقلِ غالب کے کھاتے میں جائے گا اور طاقت کی زبان کو لاف گزاری کا موقع  میسر آئے  گا۔جب ہم زوال کا  اعتراف کر  چکے ہیں تو مسائل کا ہونا بھی   بدیہی مانتے ہیں مگر ایک بات یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب میں بہت ساری چیزوں کو آئیڈلائز کیا جاتا ہے تاکہ اس سے اپنے مقاصد حسنہ کا حصول ہو سکے۔ مثلا جنگ کے بارے اوسولڈ سپنگلر لکھتے ہیں کہ جنگ ایک حقیقت اور امن ایک آئیڈیل ہےبلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر امن کو ایک متھ بنا دیا گیا اور  جنگ  کو اس کے حصول  کا  ذریعہ ٹھہرایا گیا۔ اسی طرح اخلاقیات کو بھی ایک متھ بنا دیا گیا  کہ یہاں ہر دوسرا بندہ جو میرے یا کسی دوسرے  تیسرے کے مزاج کے خلاف مزاج رکھتا ہے  وہ بدتمیز اور بد تہذیب ہے۔لہذا  پورا  معاشرہ  ہی بد اخلاق ہے ،ایک ایک فرد بدتمیز ہے۔ کیونکہ اخلاقیات کا ہر ایک کا اپنا پیمانہ ہے جسے جگہ جگہ وہ  لاگو کرتا رہتا ہے۔

 

’’مذہبی طبقہ‘‘ کہہ کر ہم نے معاشرے کے جس حصے کا ایک ہی ضیافتی ہّلے میں  کام تمام کردیا ہے، اس کا خاتمہ ایک پورے سلسلہ عمل کا خاتمہ ہے بلکہ ایک تصورِ انسان کا خاتمہ ہے۔

 

میں  ’’مذہبی طبقے‘‘ کا ایک فرد ہوں اور سماج کے زیر اثر اپنے عمل و  فکر میں در آنے والی  کجیوں پر غور کرتا رہتا ہوں۔سماجی عمل کے اثرات ایک پر پیچ عملیے کا نام ہیں اور اس سماجی عمل کے اثرات اور اس کا جبر اتنا  طاقتور ہے کہ ’’مذہبی طبقہ‘‘ اس سماجی جبر سے کہیں احساسِ کمتری کا شکار ہے اور کہیں رد عمل میں احساسِ برتری کا۔وہ دنیا سے کٹا ہوا ہر گز نہیں ہے بلکہ جب ہم نے پورے خاندانِ مولویاں  کو ایک ہی ضیافتی ہلّے میں تہ تیغ کیا تو سماجی جبر نے اسے انجان گردان کر تیسری دنیا کا باسی بنا دیا ، معاشرے کے ایک حصے پر حکم لگتا ہے تو وہ اس کی اکثریت کو محیط ہوتا ہے اور اکثریت کے اعتبار سے حکم جاری کیا جاتا ہے۔ جس  ’’مذہبی طبقے‘‘پر ہم لوگ اکثر بات کرتے ہیں سماجی جبر کی وجہ سے اس کی ہمارے معاشرے میں اخلاق،  ثقافت حتی کہ علم تک میں ایک نئی تشکیل واقع ہوئی ہے ۔جس کے اظہار سے اب ہمیں بدتمیزی، اجڈپن، بہتان اور غیبت کی بو آتی ہے۔جسے اگر میں مختصرا ًعرض کروں تو ’’ تصور اخلاق  میں تبدیلی‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

’’مذہبی طبقہ‘‘ قرار دے کر  ہم نے معاشرے کے جس حصے کا ایک ہی ضیافتی ہّلے میں کام تمام کر دیا ہے، اس کا خاتمہ ایک پورے سلسلہ عمل کا خاتمہ ہے بلکہ ایک تصورِ انسان کا خاتمہ ہے۔یہ سلسلہ عمل اگرچہ ویران ہے مگر کیفیتِ رفتہ  کی پرچھائی بہر حال ضرور ہے اور اب بھی یہی  ’’مذہبی طبقہ‘‘ اپنے اکثریتی  رنگ میں مدرسوں میں پڑھا پڑھا کر اس احساس اور تصور انسان کو باقی رکھے ہو ئے ہے۔ ہم یہ ہر گز نہیں کہہ رہے کہ یہ  ’’مذہبی طبقہ‘‘ معصوم عن الخطاء ہے مگر یہ بات سامنے کی ہے یہ سماجی جبر ،عمل میں تقدیری ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ توبہ و استغفار ہمیشہ سے خدا اور  بندے کے درمیان کا معاملہ رہا ہے مگر جوں جوں سماج کی تشکیل سیاسی ہوئی عملِ صالح کے لیے جگہ کم ہوتی گئی۔ محترم احمد جاوید صاحب  ایسے  صاحبِ علم اور  صوفی  کا  ’’احتیاطی توبہ‘‘ جیسی اصطلاح کا استعمال بہت خطرناک ہے۔ ہم محترم احمد جاوید صاحب کی اس تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں تو عجیب صورتحال سامنے آتی ہے کہ وہ اپنی اس بات پر،  جو انہوں نے اس متنازعہ کلپ میں ارشاد فرمائی ہے، ہرگز  توبہ نہیں کررہے  بلکہ  وہ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اس میں کوئی بہتان طرازی تھوڑا کی ہے بلکہ وہ معذرت اور  ’’توبہ‘‘ صرف ان لوگوں کے لیے فرما رہے ہیں کہ جن کے دل کو اس ویڈیو سے ٹھیس پہنچی ہے اور بس! وہ فرماتے ہیں:

’’مجھ سے الحمد للہ بہتان وغیرہ کا جرم سرزد نہیں ہوا لیکن یہ تاثر پیدا ہوا تو اللہ کی پکڑسے ڈرتے ہوئے میں نے استغفار بھی کیا اور معذرت بھی۔ اسے آپ احتیاطی توبہ کہہ سکتے ہیں۔تو یہ رجوع ایسا نہیں ہے کہ میں اپنے کسی غلط خیال اور برے گمان سے رجوع کر رہا ہوں۔ بلکہ یہ رجوع اس لیے تھا  کہ میری ایک بات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے کے نتیجے میں اچھے بھلے لوگوں کو جو کوفت اٹھانی پڑی اور خود مجھے اپنے آپ سے جتنی تکلیف پہنچی، اس کی تلافی بھی ہوجائے اور اگر اس میں میرے نفس کی کوئی بہت ہی مخفی چال کارفرما ہے جس کی خود مجھے خبر نہیں ہے، اس کی بھی معافی مل جائے۔ تو بہرحال، بالکل واضح لفظوں میں پھر دہرا رہا ہوں کہ اس کلپ پر ناکردہ گناہی کے باوجود توبہ بھی کرتا ہوں کیونکہ توبہ ہی بندگی کا شرف ہے، اور لوگوں سے معذرت طلب کرتا ہوں کیونکہ اپنے تئیں بے گناہی پر بھی معذرت اخلاق کی روح ہے ۔‘‘

اس متن کو مکمل پڑھنے کے بعد ’’ مذہبی طبقے‘‘ کے متعلق صرف اور صرف نفرت کے جذبات  ابھرتے ہیں اور یہی اس متن کی سب سے بڑی معنویت ہے اور خاکم بدہن اس کا مقصد بھی!

یعنی نہ تو ہم نے غلطی کی نہ ہی ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔ فقط لوگوں کا دل رکھنے  کے واسطے یہ معذرت نامہ  جاری کر  جارہے ہیں ۔ اگر کوئی بھی  صاحبِ فہم  اس معذرت نامے کے متن پر توجہ دے گا تو  اسے معلوم ہو گا کہ بیک آن اس قدر  تضادات کا حامل متن ایک بڑا آدمی ہی معرضِ وجود میں لا سکتا ہے اور ایسا متن انسانی عجلت اور رد عمل کی نفسیات کا پیچیدہ مظہر ہے جس کا نقطہء عروج  ’’احتیاطی توبہ‘‘ کی  انوکھی ترکیب ہے ۔ اس متن کو مکمل پڑھنے کے بعد ’’مذہبی  طبقے‘‘  کے متعلق   صرف اور صرف نفرت کے جذبات ہی ابھرتے ہیں اور یہی اس متن کی سب سے بڑی معنویت ہے  اور خاکم بدہن اس کا مقصد بھی!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search