ہاتھ کی چَکّی: نجمہ ثاقب

 In نظم

پرانی ڈیوڑھی کی سرخ اینٹوں پہ
دھری وہ ہاتھ کی چکیّ
میاں کی بانگ سے کچھ دیر
پہلے جاگ جاتی تھی
پرانی ڈیوڑھی کے داہنی جانب
جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی
ہری شاخوں پہ سوکھی گھاس کے تکیے لگائے
موج کرتے تھے
کہیں مدہوش سوتے تھے
کہیں کروٹ بدلتے تھے
کشادہ راستوں پہ بیل کی جوڑی
دھمک کے ساتھ چلتی تھی
تو گلیوں کے کنارے پہ جمی دیوار کی بنیاد ہلتی تھی
کبودی شال پہ اٹکے ستارے
آنکھ کے گوشے سے نیچے تاکتے
سرگوشیوں میں بات کرتے، جھلملاتے تھے
کہیں پہ دبِّ اکبر اپنی لمبی دم ہلاتے تھے
تو اک مانوس حلقے میں جڑے تارے
بڑی بی کی پرانی کھاٹ پہ چھاؤں گراتے تھے
خدا کے نام سے کھٹیا میں گویا جان پڑتی تھی
بڑی بی اٹھ کے جاتی تو
بھڑولی کوری صحنک میں، چھپا گیہوں اگلتی تھی
گھررگھر چکیّ چلتی تھی
بڑی بی اپنے سارے دکھ، غم واندوہ کی گتھلی
سنہری رزق کے ہمراہ چکیّ میں گرا دیتی
وہ پتھر کے گڑاؤ میں
جما دستہ پکڑتی اور
چکیّ کو چلا دیتی
وہ چکیّ کے دو پاٹوں میں
سبھی ارمان، اولادوں کی فرقت سے جڑے قصے
ادھوری کھوکھ کی باتیں
اکیلے پن کے دھاگے سے بنی راتیں
گیہوں میں ملا کے پیستی اور
کوری صحنک کو
کناروں تک سحر کی روشنی سے، نور کی دھارا سے بھر دیتی
سیاہ شیشم کی لکڑی سے بنی رنگیں مدھانی کو
محبت سے اٹھاتی اور بھری چاٹی میں دھر دیتی
سپیدہ صبح کا بیدار ہوتا تو
پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے
جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی
خدا کے نام کی تسبیح گراتے
زمانے رفتہ رفتہ بیت جاتے
فلک کو چومتے،اونچے مناروں سے
میاں کی بانگ اب بھی سر اٹھاتی ہے
پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے
خدا کےنام کی تسبیح گراتے ہیں
مگر رنگیں مدھانی آج تک
رعشہ زدہ ان انگلیوں کی راہ تکتی ہے
شکستہ ڈیوڑھی کی چھت کے نیچے
کسی کی یاد کی برکھا برستی ہے
پرانی ہاتھ کی چکیّ
ہتھیلی کو ترستی ہے

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search