کینچوا اور سورج مکھی: محمد عمر میمن (مرتب: عاصم رضا)

 In افسانہ
یہ افسانہ محمد عمر میمن مرحوم کی کتاب ’تاریک گلی‘ (ناشر: سنگِ میل) سے لیا گیا ہے اور انکے خاندان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

Reality    can    only    partially    be    attacked    by    logic. …   You    don’t    try    to    tangle    with    the    kind    of    reality    that    is    always    slipping    through    fingers.    Instead    you    set    up    a    world    that    you    can    manage.    That    world    may    be    perfect,    who    knows,    but    it’s    also    a    lie.    Drop    the    perfection    if    you    want    to    get    anywhere,    if    you    want    to    get    at    things,    at    reality    (Friedrich    Duerrenmatt:    The    Pledge)

ایک مصیبت تو یہی کیا کم تھی کہ وہ کینچوا تھا ؛ دوسرے یہ کہ پیدا ہوتے ہی جانے کہاں سے اُس کے تین ٹانگیں اُگ آئی تھیں : ایک کالی ، دوسری سفید ، تیسری پیلی ۔ وہ جب بھی رینگنے یا چلنے کی کوشش رہی ایک طرف، ارادہ بھی کرتا، تینوں ٹانگیں پوری طاقت سے اُسے مخالف سمتوں میں کھینچنا شروع کر دیتیں ۔ وہ کسی طرف بھی نہ جا پاتا، اور اِس کھینچا تانی میں اُس کا  پورا جسم درد کی کاٹ سے بلبلا اُٹھتا ۔ سب سے بڑی مصیبت وہ سورج مکھی تھا جس سے اُسے والہانہ عشق تھا ۔ صحرا صحرا، جنگل جنگل اپنے سورج مکھی کی تلاش میں اُس نے خاک چھانی تھی ، تب جا کر دریائے سین کے کنارے پرانی کتابوں کی ایک اِسٹال میں وہ اُسے گرد کی تہوں میں دبا ہوا نظر آیا تھا ، تاہم اُس کے رنگوں کی آگ کم نہ ہوئی تھی ۔ سورج مکھی مل گیا تو اُسی نے تیاگ لے لیا ۔ ساری رات پڑے پڑے اُسے تکا کرتا ۔ دن آتا، شام پڑتی ، پھر رات ۔۔ بے خودی کی کیفیت تھی ؛  اُس کی طبیعت سیر ہی نہ ہوتی ۔ تین ٹانگیں ، چوتھا یہ سورج مکھی عذاب ۔ ۔۔

سفید ٹانگ سورج مکھی سے اُس کی وابستگی کا راز کچھ کچھ سمجھتی تھی ۔ بارہا اُس ٹانگ نے شدتِ جذب کے ساتھ یہ آرزو بھی کی تھی کہ کوئی معجزہ ہو جائے ،یہ سورج مکھی ایک ٹانگ میں بدل جائے تو وہ اِسی نئی ٹانگ سے مل ملا کر کینچوے کو لے بھاگے ۔ یقیناً وہ بقیہ دو ٹانگوں کو کسی نہ کسی طرح زیر کر ہی لیتیں ۔

کینچوے کی بیوی کچھ دیر ہوئی اُٹھ کر دوسرے کمرے میں جا چکی تھی ، لیکن اُس کی بو باس بستر پر پڑی ابھی تک کروٹیں لے رہی تھی ۔ ظالم صبح کے ٹھیک تین بجے ڈش واشر چلانے کی عادی تھی ۔ کینچوے نے بارہا کہا بھی تھا کہ جانِ من:

تم کھلی چھت پر شبِ ماہ میں گایا نہ کرو

رات میں چند ستارے بھی پھرا کرتے ہیں

وہ اگر ساز اٹھا لیں گے تو پھر کیا ہو گا؟

وہ کہنا چاہتا تھا: تم بھری رات میں یوں ڈش واشر چلایا نہ کرو، مگر وہ ستاروں اور فرشتوں  میں اُلجھ کر رہ گیا ۔ اور جب بدقّت  ستاروں اور فرشتوں اور کھلی چھت اور ساز اور شبِ ماہ کی جھاڑیوں سے وہ نفسِ مضمون کو کسی نہ کسی طرح، لہولہان ہی سہی ، نکال کر لایا تو بیوی نے سمجھنے ہی سے انکار کر دیا۔ بولی: ’’تم یہ دو ٹکے کے ناول ، افسانے پڑھ پڑھ کر جاہل ہوئے جا رہے ہو؛ کلاسیکس پڑھا کرو! ہمارے ٹھینگے سے ، ہم پورے ایک سو پینسٹھ ڈالر ماہانہ کرایہ دیتے ہیں: جب جی چاہے گا ،ڈش واشر چلائیں گے ‘‘۔

کینچوا بڑی دیر تک تفہیم کے المیے پر غور کرتا رہا ۔ اُس نے سوچا: کھلی چھت کی نغمگی اور شعریت سے لطف اندوزی گندم گوں اقوام کا حصہ ہے ؛ یہ ٹھہری سر سے پاؤں تک نری پیلی پیلی – اِتنی پیلی کہ شادی سے پہلے ڈاکٹر نے قدرتی زردی کو خون کی خطرناک حد تک کمی سے تعبیر کر کے باقاعدہ فولاد کھانے کا مشورہ دیا تھا — اِس لیے کھلی چھت  اور رات کے سحر کو بھلا کیا خاک سمجھے گی ! کالی ٹانگ سرخوشی کے احساس سے چند ثانیوں کے لیے لہرائی ؛ پیلی ٹانگ اپنی ہزیمت پر کافی جزبز ہوئی ؛ لیکن سفید ٹانگ نے کسی قسم کے ردّعمل  کے اظہار سے خود کو باز رکھا ۔ اپنے جذبات کو چھپانے کا گر اُس نے اچھی طرح سیکھ لیا تھا ۔ مدّت ہوئی ، وہ ابھی بچّی ہی تھی ، اُس وقت  پیلی ٹانگ کا سن بھی کچھ اِتنا زیادہ نہ تھا، اُس کی پیلی ٹانگ سے اَن بن ہو گئی تھی ۔ پیلی ٹانگ، حسبِ معمول، کالی ٹانگ پر رعب گانٹھ رہی تھی: ’’ ہم نے ٹویوٹا بنا ڈالی؛ تم سے دونالی کا طمنچا نہیں بنتا! ‘‘  کالی ٹانگ کا کیا بگڑنا تھا – سدا کی بے عقل ، چپ رہی ۔ لیکن سفید ٹانگ نے اِسے اپنے پر طنز سمجھا ۔ چمک کر بولی : ’’ اے بی بی ! بس بس ، جھوٹ کی بھی حد ہوتی ہے ۔ گر تو ہمی سے سیکھا ہے ۔ پوری نقّال ہو — نقّال ‘‘۔  بعد میں سفید ٹانگ کو خیال آیا کہ بڑی بنیادی  غلطی ہو گئی ۔ ذرا چپٹی اور ٹھگنی سہی تو کیا ہوا ، پیلی ٹانگ پھر بھی اپنے رنگ کے اُجلے پن کی وجہ سے اُس سے نزدیک ہے ۔ کالی سے تو کسی قیمت پر مفاہمت ہو ہی نہیں سکتی ۔ اگر میں پیلی ٹانگ سے اُلجھنا چھوڑ دوں ، ہمساائگی کا روپ بھروں ، تو ممکن ہے ہم دونون مل ملا کر کسی رات سوتے  میں کالی ٹانگ کو پسپا کر کے کینچوے کا بھگا لے جانے میں کامیاب ہو جائیں ۔ آگے چل کر ، پیلی ٹانگ سے بھگت لینا ایسا مشکل نہیں ہوگا ۔ کالی ٹانگ – سدا کی دکھی ، پامال — ابھی تک اپنی بنیادی الجھن ہی نہ سلجھا پائی تھی : وہاں کی الہامی کتابیں دو ہیں : مقدّس وید اور دیوانِ غالب— لیکن جان عذاب میں تھی ، وہ کم از کم پچاس بار دیوانِ غالب پڑھ  چکی تھی ، لیکن اس میں وید واد کی ادنیٰ مماثلت بھی نہ ملی ۔ ’’ پرلے درجے کا منافق تھا‘‘، اُس نے سوچا  ، ’’ کتابوں کی کتاب کا ذکر ہی گول کر گیا ‘‘۔

ڈش واشر پوری قوّت سے چل رہا تھا ۔ کینچوے کا دماغ جھنجھنا  اُٹھا ، جیسے کسی نے بہت سارا کانچ پیس کر اُس کے مغز میں رواں کر دیا ہو ۔ سب کچھ تہس نہس ہو جائے، اُس نے سوچا، بس وہ اور اُس کا سورج مکھی رہ جائیں ، دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے دیکھتے پتھرا جائیں ۔ اور اگر یہ نہیں تو ، خدارا، یہ ڈش واشر تو نہیں ، کہ ڈوبی ہوئی رات میں یہ آواز کس قدر غیررومانی ہے ۔ کیا یہ کم بخت اِس وقت Grieg کا Anitra’s    Dance    from    Peer    Gynt    Suit    No.1 نہیں بجا سکتی؟ کہ کامل اندھیرے میں ، اپنے سورج مکھی سے چمٹے چمٹے، جسے سنتے ہوئے ’’مادام بووری‘‘  کا ایک بھولا بسرا منظر اُس کی یادوں  کی کہر میں واضح ہونے لگتا ہے ، اور روح ہلکی ہو کر شمالی برفیلی پاک بلند اقلیموں کی طرف اُٹھنے لگتی ہے ، اِن ظالم تین ٹانگوں  کی ہمہ وقت، پرخچے اُڑاتی موجودگی سے دور، ماورا، اوپر، اوپر اور اوپر —-

ڈش واشر اُس کے اضطراب  سے بے نیاز اپنی بے رحم گھنگھناہٹ کے ساتھ چلتا رہا ۔ کینچوے کی کن پٹیاں سنسنا اٹھیں ، منہ سے کف جاری ہو گیا ۔ ہمارے دور میں – کینچوے نے جھلّا کر سوچا – ہمارے دور میں ، ہمارے دور میں (مل بری کی، چھدری چھاؤں میں ایک خوں خوار سفید کتّا  ایک گڑیا سی کالی کتیا کو زبردستی سربسجود کر دینے کی جہنّمی  تگ و دو میں لگا ہوا تھا ۔ پاس سے گذرتی ہوئی آدھی آدھی رانوں تک ننگی لڑکی کے لبوں پر برہنہ جدیدیت ، مادرزاد حقیقت پسندی کا سفید رنگ تھا )  ، ہمارے دور میں (بچہ  رحمِ مادر میں پھنس کر رہ گیا ۔ عجیب کیفیت تھی ؛ دردِ زہ اور ٹائیں ٹائیں فش)  ، ہمارے دور میں (کیا؟)  باغ اپنی ساری غنائیت کھو بیٹھے ہیں! (بدّقت  اسقاط ہوا اور ساتھ ہی بچہ جاں بحق ۔ کینچوے کا پھولا ہوا جسم پھسک کر ہلکا پڑ گیا ۔)

سفید برّاق چادر پر کمبلوں کی دبیز ، حریری گرمی میں دھنسے دھنسے کینچوے نے خود کو بیحد بے چین محسوس کیا ۔ ڈش واشر کی بے شرم گھن گھرج  اُس کے ریشم کو تار تار کرتی رہی ، کرتی ہی رہی ۔ اُسے محسوس ہوا جیسے سورج مکھی دن دہاڑے لٹ گیا ہو ۔ گھوڑے اپنی ٹاپوں سے نرمی کے رنگوں کو روندتے آگے بڑھ گئے ہوں ، اور بچپن کی دھنکی ہوئی روئی روئی آوازوں کے جسم کا گداز چھن گیا ہو ۔ غم اُس کی گردن گردن اُتر آیا ۔

اس کی مایوس نظر اپنی ٹانگوں پر جا پڑی ۔ تینوں مزے سے پڑی سوتی تھیں ۔ سب سے پہلے سفید چت ہوئی تھی ۔ موٹر، جہاز، ڈش واشر ، ریل ، غرض کیسی ہی آواز ہو ، سنتے ہی یہ وجد میں آ جاتی اور پتا بھی نہ چلتا کب سحرزدگی ہی میں اُسے نیند آ گئی ۔ پیلی ٹانگ اِدھر شہر کے شمالی سرے پر ریشمیں سبز کنو گاسا پہاڑیوں کے دامن میں کنکا کوجی مندر کے لازماں حسن کا تصور کرتی ، اُدھر پٹ سے بے جان مچھلی کی طرح ساکت ہو جاتی ۔  ایک کالی ٹانگ ہی ایسی تھی جسے کم خوابی کی عام شکایت تھی ۔ پڑے پڑے پہروں  سوچا کرتی تھی کہ دیوتا اور تصوف میں کیا تعلق ہے ۔ ایسے ہی جنونی خیالات نیند حرام کر دیتے اوراُسے

وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

اک روز چمکنے والی تھی دھن تاک دھنا ، دھن تاک دھنا

گاگا کر خود کو نیند کے آگے پسپا کرنا پڑتا ۔ اِس وقت بھی وہ دھن تاک دھنا ، دھن تاک دھنا کرتی سو گئی تھی ۔

کینچوے نے سوچا: فراغت کے اِس لمحے سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ جی تو یہی چاہتا تھا کہ گریگ کی موسیقی قطرہ قطرہ کانوں میں ٹپکے اور وہ ’’مادام بووری‘‘ کے اُس طلسماتی دودھیائی منظر کا تصور کرتے ہوئے، اپنے سورج مکھی سے چمٹے چمٹے کہرا جائے ، مگر یہ ناممکن تھا  کہ وہاں  ڈش واشر اجنبی بچپن کی آوازوں کو ایک ایک کر کے دریا میں پھینکتا جاتا تھا ۔ کینچوے نے آہنی پردوں کو کن پٹیوں سے گدلی آنکھوں پر تانا اور کچھوے کی طرح عارضی مرگ میں چلا گیا ۔

بال رہے ایک طرف، روؤں سے بھی آزاد، پیلے پیلے ستے ہوئے جسم پر شاور کی پھوار — نغمہ آواز آواز گر رہا ہو ۔ اور جہاں وہ متناسب ستون آ کر بغل گیر ہوتے تھے وہاں، انتظار حسینی یا عجب!  کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ  وہاں رات کی طنابیں اِس درجہ تنی ہوئی تھیں اور اُن پر جھار جھنکاڑ کے وہ ملبے کہ الامان و الحفیظ ! اور وہ کم بخت تھا کہ نارجہنّم  میں جھلستے ہوئے بھی، دانتوں تلے مضبوطی سے پائپ دابے ، دھونکنی کی طرح تمباکو کے دھوئیں چھوڑتے یہی بکے جا رہا تھا : ’’بلّیاں ہی بلّیاں ! رانوں میں چھپی بیٹھی بلّیاں ہی بلّیاں ۔۔۔۔‘‘

’’دیکھو ‘‘، کینچوے نے کیسے عاجزی سے گھٹنے ٹیک کر کہا تھا ، ’’تم یہ جھاڑ جھنکاڑ صاف کر ڈالو ! اول تو یہی کہ مجھے رات کے تصور ہی سے ہول آتا ہے ، دوسرے یہ کہ مجھے ساتھ سو ملین (حالیہ مردم شماری کے مطابق: ایک بلین — راوی قصہ ہذا) کینچووں کی برادری سے عاق کر دیے جانے کے خیال سے کپکپی چھوٹ جاتی ہے ۔ دیکھو، مان جاؤ، لاؤ میں  ہی صاف کیے دیتا ہوں‘‘۔

کینچوا جو بدقت اپنی تین ٹانگوں کو بہلا پھسلا کر اِس قابل ہوا تھا کہ اُن کے کھردرے تعاون کے سہارے گرتے پڑتے غسل خانے پہنچے ، یک لخت مڑا اور گر پڑا ۔ پیلی ، اور پیلی کی دیکھا دیکھی سفید، دونوں عین وقت پر معاونت سے دست کش ہو گئیں ۔ ایک کالی ٹانگ تھی جو ڈٹی رہی ۔ اور یوں وہ گرا تو سہی ، لیکن منہ کے بل نہیں ۔ بدھ کے نسوانی برہنی مجسمے نے زور کا قہقہہ  بلند کیا ، مگر کینچوے نے بجائے خفّت محسوس کرنے کے بڑی ڈھٹائی سے کہا: ’’دیکھا تم نے؟ تم پیلے لوگ نفرت کی طرح زرد ہو! آخر کالک ہی کام آ ئی ! ایک وقت آئے گا کہ تمہاری مورننگ گلوری کے بے مہک پھول اپنی خوب صورتی کھو بیٹھیں گے اور کالی ٹانگ پر سرج مکھی کے جلتے ہوئے پھول اُگا کریں گے ‘‘۔

پھر کینچوا کالی ٹانگ کے سہارے اُٹھا اور لڑھکتے لڑھکتے کیبنیٹ (cabinet)سے اُسترا  نکال کر ٹب کے پاس آیا ۔

رات کا سینہ دو نیم کرتی ہوئی وہ دھار دار چیخ تھی ہی کچھ اِتنی خوفناک کہ سارا محلّہ جاگ اُٹھا اور اندھیرے میں جس کے ہتّھے جو چڑھا ، لیے بھاگا چلا آیا۔ اب وہ دروازہ کھٹکھٹاتے اور چیختے جاتے: ’’ خون ہو گیا ! قتل ہو گیا ! ‘‘

کینچوے نے وہیں غسل خانے سے چلّا کر دفاعی وار کیا : ’’کیوں نیند حرام کر رکھی ہے بھلے آدمیو ! خانگی مسئلہ ہے ۔ خالص ۔ کوئی قتل  خون نہیں ہوا ہے ۔ جاؤ، بھاگو ! ‘‘

محلّے والے اُس کی آواز کا سکون محسوس کر کے مطمئن لوٹ گئے ۔ شاور ایک دم رک گیا ۔

’’یہ بھی مذہبی مسئلہ ہے؟‘‘  مورننگ گلوری بھنّا کر بولی ۔

’’مذہبی ؟‘‘کینچوا لمحے بھر کے لیے سوچ میں پڑ گیا ۔

’’ہا ۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔ ں۔۔نہ۔۔نہیں ‘‘، وہ بولا ۔ ” لا حول ولا ۔۔۔ نہیں ۔ بالکل نہیں ۔ بھئی خالص جمالیاتی مسئلہ ہے ۔ لذّت کا مسئلہ ہے ۔ اور پھر میری پسند ۔۔۔‘‘

’’تمہاری پسند ناپسند ، ہونہہ ، کینچوے کی پسند سے کیا ہوتا ہے‘‘۔

’’چلو یوں ہی سہی ۔ مگر میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ کینچوے کا نہیں ، جمالیات کا مسئلہ ہے ‘‘۔

’’کرو! ‘‘

’’تمہیں Goya کا وہ کینوس یاد ہے۔۔۔؟‘‘

’’کون سا؟‘‘

’’وہی جسے ہسپانوی محکمۂ ڈاک نے ٹکٹ پر بھی چھاپا تھا ۔ خیر جانے دو ۔ Goya رہا ایک طرف ۔۔۔‘‘

’’آہ ، اچھا۔ اب سمجھی ۔ مگر یہ فطرت کے خلاف عمل ہے ۔ نہیں ، نہیں ‘‘۔ چیری بلاسم نے کسمسا کر اپنا جسم سمیٹ لیا ۔

’’اچھا تو چلو بغل کے بال ہی منڈوا لو ۔ پہلے یہ کام تم خود ہی باقاعدگی سے انجام دے لیا کرتی تھیں ۔ جانے اِدھر سال دو سا ل سے تمہیں یہ جنگل اُگانے کا شوق کیوں چرایا ہے ۔ جنگلوں میں اکثر آگ واگ بھی لگ جاتی ہے‘‘۔

اور اب یہ کینچوے کا معمول ہو گیا تھا کہ دوسرے تیسرے جب بدھ شاور لے رہا ہوتا، گرتے پڑتے آتا اور اُس کی بغلیں مونڈ دیا کرتا ۔ وہ اُسترا اُٹھاتا ، اپنے سامنے ایستادہ ستے ہوئے کندن بدن کو دیکھتا ، ایک وارفتگی سی اُس پر طاری ہو جاتی ۔ بیچ سرسوں کے کھیت بدھ کا سونا سونا مجسمہ پڑا ہو اور کھلی بسنت میں وہ نشے سے دھیرے دھیرے بند ہوتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ، اُس کے سامنے سرنگوں ہو ۔ اور وہ کم بخت ، بھلا مانس ، کوڑے کھاتا، جہنّم کی آگ میں پو ر پور جھلستا یہی راگنی الاپے جاتا : ’’ بلّیاں ہی بلّیاں ۔۔۔‘‘

دو ماہ لمبا  سمندر پار کر کے انجام کار وہ اب کنوگاسا کی پہاڑیاں عبور کرتے ہوئے شہر کے شمالی حصے میں اُتر رہے تھے ۔ خزاں ٹھیک اُن کی نظروں کے سامنے سرخ ، عنّابی ، نارنجی ، زرد جل رہی تھی ؛ چیری ، آڑو اور گنکوبام کی ٹہنیاں ننگی باہوں (بانہوں) کی طرح اُجاڑ اُجاڑ کھڑی تھیں ۔ عقبی ڈھلوانوں پر کنکا کوجی کا سونا تالاب   میں گہرا زعفرانی ہو چلا تھا ۔ بدھ بھکشو گائے جاتا تھا:

یو زورا ہارے تے اکی کازے فکی

تسو کی کاگے اُوچی تے سوزو مشی نکو

اُو موے با توشی کو کیو نوسو را

آ آ واگا چچی ہما ای کانی اُو واسو

نامعلوم کا خوف اُس کے دل میں گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔ وقفے وقفے سے سورج مکھی کی آواز وادی میں گونجتی : ’’ مت جاؤ! رک جاؤ! یہ جو جو سرزمین ہے ؛ یہاں سے کوئی بھی باہوش واپس نہیں لوٹا ۔ رک جاؤ! لوٹ آؤ! ‘‘ وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا لیکن ابوسان کے چہرے پر لازماں سکون  ، ابدیت اور عجیب غیرارضی طمانیت کی وہ ہلکی آسمانی چھاپ  ہوتی کہ اُس کے قدم سحر سے آزاد ہو کر پھر چلنے لگتے ۔

چلتے چلتے اب وہ شہر کی مغربی گھاٹیوں تک آ گئے تھے ۔ ’’یہ ریوآنجی مندر ہے‘‘، ابوسان کہہ رہا تھا ’’ “زین بدھ کے دن زائی فرقے کا ۔ سوآمی کا شاہکار ۔ سادگی میں بڑا حسن پوشیدہ ہے ؛ سادہ جملے بڑے اثرانگیز ہوتے ہیں۔ سوآمی اپنے طور پر سکون اور ابدیت کا ایسا ہی نتھرا ہوا سادہ تصور پیش کرنا چاہتا تھا ۔ ترائی میں پیچیدگی ہے، خوف ہے، اور زندگی ۔۔۔ خالی اور مٹیالی ‘‘۔

وہ اُس بلند اور گھپ تاریک کمرے میں داخل ہوئے ۔ نظریں کچھ دیکھ نہ سکیں ، لیکن اوپر نم خنکی اور پیروں تلے کچی مٹّی کی سوندھی سوندھی  مہک میں عجیب آسودگی تھی ۔ اُنہوں نے اپنے جوتے اتارے اور بائیں طرف دروازے سے برآمدے میں نکل آئے تو دیکھا چوبی عرشے پر کئی لوگ بیٹھے سامنے کی طرف عجیب مھویت سے تکے جاتے تھے ۔ اُن کی پشت پر مندر تھا اور سامنے چھوٹا سا احاطہ جس میں ننھی ننھی کنکریاں بچھی تھیں ۔ وہ سحر زدہ ، پھٹی آنکھوں سے انھی کنکریوں میں کھو گئے تھے ۔ جسم بے حرکت، تنفّس کا زیروبم تک محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ یاخدا! یہ زندہ  ہیں یا بیٹھے بیٹھے مر گئے ہیں؟ اُن کے سامنے کیا ہے؟ کیا ہے جو یہ اِس طرح غرق ہو گئے ہیں؟ وقت کے پاؤں جیسے احاطے کی دوسری طرف برف ہو گئے  تھے۔ ایک خاموشی تھی ، ایسی بے پناہ کہ روح میں سمائی جاتی تھی ، ایسی بھرپور، ایسی اُلوہی کہ وہ سہم گیا ۔ برسوں کی بات ہے ، آبائی شہر میں ایسی بھرپور خاموشی کا تجربہ ہوا تھا: جون کا مہینہ تھا ۔ بھری دوپہر یا میں وہ اسکول سے لوٹ رہا تھا ۔ آس پاس آدم نہ آدم زاد، چرند پرند سب گم ۔ خیرہ کن تمازت میں وہ اچانک کوٹھی سے تھوڑی دور ٹھٹک کر کھڑا رہ گیا تھا ۔ اُسے محسوس ہوا تھا کوئی چیز نظر نہ آتے ہوئے بھی بڑے ناگزیر طور پر اُس میں سمائی جاتی تھی ۔۔۔ جیسے آس پاس نہ ہوتے ہوئے بھی کوئی ہو ۔ وہ چاپ ۔۔۔ اور وہ اُس تنہا ، لہریں مارتی خاموشی کو اپنے میں سما نہ سکا تھا اور ڈر کر بھاگ اُٹھا تھا ۔ اگلے تین روز اُسے ہر طرف بس پرچھائیاں ہی نظر آتیں ، یا چڑیلیں اور آسیب ، اور تین روز تک وہ مسلسل بخار میں پھنکتا رہا تھا ۔

’’ تم کانپ رہے ہو‘‘، ابوسان سرگوشی میں کہہ رہا تھا ۔ ’’ڈرو مت! تم یہاں بیٹھ کر اپنی روح میں تازگی محسوس کر سکتے ہو ۔ بس سامنے کی اور (سمت) دیکھے جاؤ‘‘۔

اُس نے ڈرتے ڈرتے منہ اُٹھا کر سامنے دیکھا ۔ ایک مستطیل چار دیواری میں سفید کنکریاں بچھی تھیں : صرف کنکریاں اور ایک بڑا سا پتھر، جوبائیں طرف چوبی دیوار سے دو قدم کے فاصلے پر پڑا تھا ۔ ریت پر لہریں سی بنی تھیں ، جیسے سمندر کی سطح کو ہوا ابھی ابھی چوم کر گئی ہو ۔ وہ خاموشی ، وہ اُس کا ریشمی سحر ، وہ اُس کی دلکش سادگی۔ وہ پراسرار ، ملائم، آہستہ رو، نیلگوں آسودگی ، وہ اُس کا دل میں رچ بس جانا ۔ وقت چار دیواری کے اُس پار آ کر رک گیا تھا ؛ وہ اُس کی آبلہ پائی ، وہ انکسار، وہ عجز!

وہ آگے دیکھے گیا ۔ ایک سرد لذّت اُس کی نس نس میں نرم روی سے بسنے لگی ۔ وہ پتھراتا گیا ۔ ایک جگ بیت گیا ۔ خزاں کی خنک خشک اداسی کے ہاتھوں برہنی ہوئی ٹہنیوں کے جال میں سورج کب کا گر چکا تھا ۔ رات چٹانوں کے باغ پر بہت نیچے تک اُتر آئی تھی ۔ کسی نے آ کر انگاروں پر لوبان چھڑک دی تھی اور ایک بڑی سی کاغذی لالٹین چوبی ستون کے پاس  ہوا کے زیروبم کے ساتھ جھولتی ہوئی نیچے فرش پر پُراسرار پرچھائیاں بنا رہی تھی ۔

’’لوٹ آؤ! ‘‘ ، ابوسان نے اُس کا شانہ ہلاتے ہوئے کہا ۔ گہری غنودگی میں اُسے محسوس ہوا ابوسان کی آواز وقت کے ماورا، شمالی اقلیموں میں ، گردن گردن برف میں دھنسے جزیروں سے آ رہی ہو ۔ آہستہ آہستہ اُس کا سانس واپس لانا شروع ہوا ۔ اور اُس کے اعضا ، سحر کی گرفت سے آزاد ہو کر حرکت کرنے لگے ۔ پھر اُس نے جھرجھری لی اور اُٹھ کھڑا ہوا ، لیکن اُس کی ٹانگیں ابھی تک شل تھیں ۔

’’سو گئے تھے ؟‘‘

’’نہیں ۔ پتا نہیں ۔ شاید ۔۔۔ عجیب تجربہ تھا ۔ مجھے خوف آتا ہے ، ابوسان، مجھے خوف آتا ہے ۔ بس میں کنکریوں کو دیکھے جاتا تھا اور سفید برہنہ کنکریاں ۔۔۔۔ میں کھو گیا تھا ۔ بیکراں روئی روئی برف کی اقلیم تھی ، سرخوشی ، پراسرار، عجیب آسودگی اوروقت میرے لیے تھم گیا تھا ، اور مجھے کوئی یاد نہ رہا اور اپنے آپ کو تو میں خود بھول گیا اور سورج مکھی ۔۔۔ میں پہلی بار سورج مکھی کے بغیر جینے کے قابل ہوا ۔ جیسے میں ہر جگہ تھا ، ہر چیز میں تھا ، آہٹ تھی ، اور چاپ تھی اور نظر دور دور تک کوئی نہیں آتا تھا ۔ ۔۔ ایک بات پوچھوں؟‘‘

’’پوچھو‘‘۔

’’میں بہت بڑے شہر سے آیا ہوں ، پر ایسا تجربہ کبھی نہیں ہوا ‘‘۔

’’یہاں بھی ترائی میں اُتر جاؤ گے تو پھر نہ ہو گا‘‘۔

’’کیوں؟‘‘

’’ترائی میں ہم اپنے عنصر سے دور ہو جاتے ہیں‘‘۔

’’ابوسان! ‘‘

’’ہوں ‘‘۔

’’میں تمہیں ابوسان کہوں تو برا تو نہ مانو گے‘‘۔

’’نہیں ‘‘۔

’’ابوسان ! ایک بار میں نے نماز پڑتھی تھی ، مگر ایسا تجربہ جو پوری روح کو جھنجھنا دے ، نتھرا اور ہلکا کر دے ، جو یہاں پتھروں کے باغ میں ہوا، نہیں ہوا تھا‘‘۔

’’تم نے پورے انہماک سے نہیں پڑھی ہو گی‘‘۔

’’کیا کہتے ہو ابوسان؟ تمہیں اپنے مذہب کا خیال نہیں؟‘‘

’’مذہب! اول آخر ذات اہم ہے ! ‘‘

’’ابوسان! ‘‘

’’ہوں ‘‘۔

’’تم کس کی پرستش کرتے ہو؟‘‘

’’کس کی؟۔۔۔ کس کی اہم نہیں ۔ اہم یہ ہے کہ انسان اُس ذہنی اور روحانی کیفیت سے دوچار ہو سکے جہاں مارے تشکّر کے اُس کے آنسو نکل آئیں ۔ کسی نامعلوم شاعر کی نظم ہے:

مجھے نہیں معلوم

یہاں کس دیوتا کا گھر ہے

پھر بھی

شدّتِ معنویت سے میرے آنسو نکل آئے ہیں

تو، رویّہ اوراعتقاد  کی صلاحیت اہم ہے ‘‘۔

’’ابوسان! ‘‘

’’ہوں ‘‘۔

“ایک بات کہوں‘‘۔

’’کہو ‘‘۔

’’مجھے ہر وقت ہول آتا ہے ۔ لگتا ہے قدموں کی چاپ ہے جو میرا پیچھا کر رہی ہے ۔ میں پلٹ کردیکھتا ہوں تو کچھ نظر نہیں آتا ۔ لگتا ہے میری روح ٹو ٹ گئی ہے  ۔  لگتا ہے وہ چاپ میرے گناہ کی چاپ ہے ۔ میں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ مجھے نہیں معلوم ۔ بس اِسی لیے سورج مکھی کو دیکھ کر جی لیتا ہوں‘‘۔

’’سورج مکھی چاندنی ہے‘‘۔

’’چاندنی ۔۔۔ ‘‘

’’جھوٹ ہے‘‘۔

’’جھوٹ۔۔‘‘

’’تمام غیر حقیقی چیزیں چاندنی کی طرح پرفریب ہوتی ہیں ۔ سورج مکھی کا کوئی وجود نہیں ۔ تم اکائی سے منحرف ہو ، دوئی سے تمہیں خوف آتا ہے ۔ بیچ میں تم نے سورج مکھی کھلا رکھا ہے ۔ نہ تم نے اکائی پر غور کیا ہے ، نہ دوئی پر ۔ ترائی میں خوف پرورش پاات ہے ، اور خوف سورج مکھی کو جنم دیتا ہے ۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کو اپنے اپنے سورج مکھی کے دائیں بائیں دیکھنا ہو گا ۔ تم جس طرف بھی اعتقاد سے مڑو گے ، کبھی گمراہ نہ ہو گے ، لیکن مڑنے کے لیے تمہیں سورج مکھی کی لاش پر ہو کر چلنا ہو گا‘‘۔

’’ابوسان! ‘‘

’’ہوں ‘‘۔

’’مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ میرا دماغ پھٹ جائے گا ۔ یہ پرچھائیاں ، ابوسان ، یہ چاپ۔۔۔‘‘

’’ہشت، تمہی  ہو ‘‘۔

’’اور تم۔۔۔؟‘‘

’’چھو کر دیکھو ۔۔ میں بھی تمہی ہوں ‘‘۔

’’ابوسان! ایسوپ کی حکایتوں میں وہ حکایت میرا سکون برباد کر دیتی ہے جس میں کالی اور پیلی ٹانگ کے ارتباط سے وہ چوزہ پیدا ہوتا ہے جو نہ کالا ہوتا ہے نہ گورا، اور جو کالا بھی ہے اور گورا بھی ۔ گوری اور کالی ٹانگ اپنے شب روزی امتیاز کے باوجود جی لیتی ہیں ۔ مصیبت ننھے چوزے کی ہوتی ہے ۔ مجھے اُس پر بڑا رحم آتا ہے ۔ مجھے رحم پسند نہیں ۔ رحم انسانوں کے درمیان فصیل تراشتا ہے ۔ میں کیا کروں؟ سورج مکھی کے پاس بھی اِس کا جواب نہیں ‘‘۔

’’ننھے چوزے کی پرو ا ن کرو ۔۔ پاک اور صاف ذہن ہی ’ وہ ‘ہے ‘‘۔

’’           ’وہ ‘۔۔۔ کیا؟‘‘

’’کوئی نام دے لو‘‘۔

’’وہ ۔۔ خدا۔۔ابوسان ! مجے ڈر لگ رہاہے ، یہ آہٹ کیسی تھی ؟ کس کی تھی؟ پرچھائیاں ۔۔۔ ابوسان بانس کی کھپچیاں کیسی ہیں؟‘‘

’’سورج مکھی ہیں ۔ ترائی کے ضعیف الاعتقاد لوگ اِن کے ذریعے اپنے اور اپنی روح کے درمیان وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ اِن پر اپنا نام ، عمر ،ا ور خواہش لکھ جاتے ہیں ۔ پروہت خوش آئند وقت پر اِنھیں جلاد دیتا ہے ‘‘۔

’’مجھے خوف آتا ہے ، ابوسان ،مجھے خوف آتا ہے: یہ آواز ۔۔۔‘‘

’’ہوا ہو گی ۔۔‘‘

’’ہوا؟۔۔نہیں ، یہ پرچھائیاں ، ا ۔ ب ۔ ب ۔ بو ۔ بوس ۔ بوس ۔ سان ! ‘‘

’’نہیں ، نہیں ۔۔۔ اوہ ۔۔ میں نے تو صرف تیری ہی پرستش کی تھی ۔ مجھے بچا کہ چاند ، سورج، اور چاول کے یہ دیوتا آسیب کی طرح میرا پیچھا کیے جاتے ہیں ۔ یہ کیا زمین ہے؟ یہاں پرچھائیاں ہیں اور خوف ہے اور پانی ہے اور موت ہے اور، اور، بھاگو کہ اِن نیم روشن چوبی راہداریوں میں گناہ ہے اور روح کی موت ہے ۔ بھاگو کہ یہ ، سامنے ، وحدت کی لاش پڑی ہے ، ابوسان! سورج مکھی ! سورج مکھی!

when/a      boa/dy    meets/a     boa/dy     com/in’     through/the    rye

when/a   boa/dy    meets/a     boa/dy      need/a      boa/dy       cry

lull/la      la/la      la/la     la/la    la/la    la/la   la

yu/zora/hare/te     a/kika/ze/fuki

’’تم پھر بہک گئے ہو‘‘۔

’’آوازیں میرا پیچھا کر رہی ہیں ابوسان ! چلو ، یہاں سے بھاگ چلیں ، میری طبیعت ٹھیک نہیں ‘‘۔

غربی گھاٹی میں کھوئی ہوئی حقیقی دنیا سے وہ ترائی میں  نکل آئے ۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا جا رہا تھا جیسے کوئی چاپ پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہو ۔ دبیز خاموشی میں انہوں نے کامو   ندی  کا پل پار کیا ۔

’’دیکھ رہے ہو ! ترائی کی اِس ندی کا پانی کس قدر گدلا ہے ، پر جب یہ کنوگاسا کی آغوش سے پھوٹ کر بہتی ہے تو اِس کے پانیوں میں جھک کر آدمی اپنی روح کے آرپار دیکھ سکتا ہے‘‘۔

ندی کے پل سے گھڑگھڑاتی ہوئی ٹرام اُن سے آگے نگل گئی اور وہ تنگ سی کیتازونوچو میں مڑ گئے ۔ گلی میں سشمی کی کچی ، برہنہ بو بسی ہوئی تھی ۔ اُسے بڑے زور کی اُبکائی آئی اور پیٹ پکڑ کر وہیں دہرا ہو گیا ۔

’’واقعی  تم بیمار ہو ‘‘۔ کیتازونوچو میں ابوسان کی آواز دور تک گونجی اور برف ہو گئی ۔

اُس نے ڈرتے ڈرتے چوبی فریم کے سلائڈنگ ڈور کو دھکیلا تو اندر ، ’’دوسرے آدمی کے ڈرائنگ روم‘‘میں ، صوفے پر جبی ژاں کو سر جھکائے گہری سوچ میں غرق پایا ۔ حقے کی نال اُس کے داہنے گال کے سہارے ٹکی تھی ۔ ایک مکھی اُس کی ناک کی پھننگ پر بیٹھی تھی اور سارے کمرے میں سنڈریلا  رقص کیے جا رہی تھی ۔ باورچی خانے میں اوکیک سان سوئے کی پھلیاں اُبال رہی تھی ، اور درائنگ روم کے بڑے بڑے شیشوں والے دروازے کے باہر چھوٹے سے باغ میں بانس کی اُفقی طور پر بچھی نلکی سے پانی نیچے دھرے مٹی کے برتن کی لبریز سطح پر قطرہ قطرہ  ٹپک رہا تھا ۔ ہر ٹپکتے قطرے کے ساتھ سطح آب پر مدوّر لہریں بنتیں اور مرکز سے پھیل کر برتن کے کنارے پر گول گول فنا ہو جاتیں ، مگر لہروں کا وہ کھیل ابد سے چلا آ رہا تھا ، اور وقت اِنھی میں کہیں کھو کر رہ گیا تھا ۔ اندر ڈرائنگ روم میں ، ٹیلی ویژن پر مشاعرہ جاری تھی ۔ ایک منحنی ، گھنگھریالے بالوں والا پینتیس چھتیس سالہ جوان— جو مکلّف چوڑی دار پاجامہ ، شیروانی اور سر پر دوپلّی ٹوپی پہنے تھا— ہاتھ آگے کو  لہراتے ہوئے پڑھتا تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب!

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا   پایا

جپی ژاں یوں بدک کر اپنی نشست سے اُچھلا گویا کن کھجورا(اُس کی) ران سے چمٹ گیا ہو ۔ ’’ جوان! یہ سب بکواس ہے‘‘، جپی ژاں بڑبڑایا ۔ ’’ جنھیں کل تک محلّے کی چماریوں کے ساتھ بھی گھڑی دو گھڑی کھڑے کھڑے ہم بستری کی سعادت حاصل نہ تھی ، آج دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پاتے ہیں ۔ واللہ چہ خوب! یہ جدیدیت ہے ، نہ ٹھیٹھ حقیقت پسندی ؛ حد تو یہ کہ انتظار حسینی باز خوانی بھی نہیں ۔ اِس جھوٹ سے بہتر تو یہ کسیلی حقیقت ہے کہ اب سنڈریلا مجھ کھوسٹ کے گرد رقص کرے ۔ اور یہ مکھی – تو بھئی یہ ہم سب سے کہیں آگے نکل کئی ہے : اِس کی بھنبھناہٹ میں اِس کے فن کی ہیئت اور موضوع دونوں اوپر نیچے ایک ہو گئے ہیں ‘‘۔

پورے مکان میں لوبان کا دھوا ں بھرا تھا ۔ عجیب نیم روشنی چھوٹے چھوٹے گلیاروں سے چمٹی پڑی تھی ۔ سیلن ، کافور کی مہک ، موت کی چاپ — اُسے بالکل یوں لگ رہا تھا کہ بھری دوپہریا کی طلسمی خاموشی میں دہشت زدہ ایک ایک کر کے تکون سے پتھر کی سلیں نوچتے نوچتے اب وہ اُس آخری سل تک آ گئے ہیں جس کو ہٹاتے ہی صدیوں کی قیدی بُو کا بھبھوکا اُٹھے گا ، جس کے ساتھ ہی زمانوں کا ممیایا ہوا وہ آدمی یک لخت اپنے تابوت سے جست لگا کر اُنھیں آ لے گا ۔ نہیں ، نہیں —اُس کی چیخ نکل گئی ۔ وہ کانپ رہا تھا— اور حرارت کی زیادتی سے اُس کی آنکھیں انگارہ ہو رہی تھیں ۔

جپی ژاں نے لمحے بھر کے لیے حقّے کی نال اپنے جھرّی دار رخسار سے الگ کی ۔ بڑی ناگواری سے اُسے دیکھا اور بولا: ’’  اور تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم نے چماری سے ہم بستری کی اور اب انجام سے کھڑے کپکپاتے ہو ۔ مکھّی گھر گھر گھومتی ہے ، پر اُسے تو ایسا کوئی بخار نہیں چڑھتا ‘‘۔

اُس نے آنکھیں مضبوطی سے میچ کر ، کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر سوچا کہ وہ وہاں نہیں ہے – سورج مکھی ! کہاں ہو ؟ میرے پاس آؤ ، میری جان — کانپتے دل کے ساتھ وہ نیم روشن چوبی گلیاری عبور کرکے نرکلوں کے دروازے تک آیا اور اندر داخل ہو گیا ۔ فنائل کی بو، کافور کی بو، کافور چھڑکی میّت کی بو، موت کی بو ۔۔ اور سامنے نہ اپنے شہری جیسی دیسی کھڈّی تھی ، نہ فرنگیوں کی کموڈ — وہ جو کچھ بھی تھی ، سفید اور قبر جیسی اور چھوٹی کہ ننّھے  بچّے کی قبر ہو۔ اُس کا سر چکرایا ۔ باہر چوبی فرش پر چاپ اُٹھی ۔ کیا دیکھتا ہے کہ چڑیلیں اُلٹے پنجوں چلی آتی ہیں ۔ وہ گر پڑا ۔ سورج مکھی ! سورج مکھی! اُس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔ سورج مکھی! ہم اُجلی دھوپ جیسی وحدت کی روایت کے پروردہ ہیں ۔ اور یہ بت کدہ ہے ، نیم روشن ۔ میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ چلو ، بھاگ چلیں ۔ وہ ساکت ہو گیا اور ’’ دوسرے آدمی کے ڈرائنگ روم‘‘ میں جپی ژاں —- کہ اِس مدّت میں جس کے بالوں پر کچھ اور برف جم گئی تھی — کہہ رہا تھا : ’’  بھاگ کر جاؤ گے کہاں؟‘‘

ٹک ۔ ٹک ۔ ٹک — جیسے کوئی سونٹی سے چوبی کٹورا بجائے جاتا ہو ، یا جیسے آبائی شہر میں سناروں کی گلی میں چاندی پیٹی جا رہی ہو: ٹک ۔ ٹک ۔ ٹک ۔ مسلسل ۔ اِسی ٹک ٹک سے اُس کی نیند کھل گئی ۔ مشرق میں ابھی سورج نکلنے سے ذرا پہلے والی سرخی تھی اور کیتازونوچو میں آمدورفت شروع ہو چکی تھی ۔ اُس نے داہنے پہلو میں ننّھے کینچوے کو ٹٹولا ۔ وہ وہاں نہ تھا ۔ اُس نے بائیں پہلو میں ٹٹولا ، وہ وہاں بھی نہ تھا ۔ اُس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا ۔ وہ اُٹھا اور رینگتا ہوا چوبی زینے تک آیا اور ٹک ٹک کی آواز کے سہارے سیڑھیاں اُترتا ہوا ڈیوڑھی میں آ گیا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ابوسان چٹائی پر بیٹھا سونٹی سے موکوگیو بجاتا ہے ۔ اُس کی آنکھیں بند ہیں اور وہ کسی نامعلوم زبان میں کچھ بڑبڑاتا جاتا ہے ۔

اور وہ دیوار میں جڑی اُس چھوٹی سی بند  الماری سے کوئی دس قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے ۔ ننّھا کینچوا اُن کے قدموں میں پڑا بڑی دلچسپی سے اُنھیں دیکھے جاتا تھا ۔ پھر وہ الماری کے پاس گئے ۔ پٹ   کھولے تو اندر کسی بزرگ کی تصویر فریم میں جڑی نظر آئی ۔ اندر کارنس پر چھوٹی چھوٹی مدوّر کٹوریوں میں چاول کے لڈّو اور کئی اقسام کے کھانے پڑے تھے ۔

’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ رات ہم سب گھبرا گئے تھے ‘‘۔

’’ٹھیک ہوں‘‘۔

’’ یہ —اوہ ، یہ میرے والد ہیں‘‘، انہوں نے کہا ۔ ’’ُنہیں گزرے ہوئے آج پورے پینتالیس سال ہو گئے ہیں‘‘۔

پھر وہ پیچھے چلتے ہوئے آئے اور الماری سے دس قدم پر کھڑے ہو کر کچھ بول پڑھے اور بڑے زور کی تالی بجائی ۔ پھر اُنہوں نے ننّھے  کینچوے کی طرف ہاتھ بڑھایا ، مگر اُس نے جھپٹ کر اُن کا ہاتھ کھینچ لیا ۔ ’’نہیں ، رہنے دیجیے ‘‘۔ اُس کی آواز کانپ رہی تھی ۔

’’اچّھا —‘‘،  اُن کی بوڑھی آنکھوں میں مایوسی کی نمی آ گئی ۔

چٹائی پر بیٹھا ابوسان موکوگیو پیٹے گیا ، پیٹے گیا ۔ یکایک بھنور اُس کے سر میں پھوٹ  بہی ۔ وہ موکوگیو نہیں، گویا انسانی کھوپڑی تھی جسے ابوسان پیٹ رہا تھا ۔ ’’ابوسان ! ‘‘ وہ چیخا ، “اِس کمرے میں روح ہے روح ، ابوسان ! بدروح ! سورج مکھی، مجھے یہاں سے لے چلو ‘‘۔ سب کچھ اُس کی نظروں کے سامنے گڈمڈ ہو گیا ۔ بزرگ یہ کہتے ہوئے اُسے سنبھالا دینے بڑھے: ’’ میرے والد کی ہو گی — وہ میری وفا شعاری اور خدمت سے خوش ہو کر چلے آئے ہوں گے ‘‘۔

پھر بھری دوپہریا میں جیسے کوئی بھوت بیروں کی لالچ میں اُنہیں بہلا پھسلا کر سکول سے کشاں کشاں قبرستان تک لے آیا ہو — کہ سنتے ہیں بھری دوپہریا میں قبرستان کے بیروں کا کھٹ مٹھا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے –اور اب جب کہ  اُنہوں نے اپنے اپنے بستے بیروں سے بھر لیے تھے ، اُس کے سارے دوست یکایک جانے کہاں غائب ہو گئے تھے ، اور وہ بھری دوپہریا میں تن ِ تنہا رہ گیا تھا ۔ گرم، پھٹ سنسان سنّاٹا ، خیرگی ، سامنے قبر کہ جس میں پڑے شگا ف میں موٹے موٹے چیونٹے آتے جاتے تھے ۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ اُس کے ننّھے سے ہاتھ میں گول مٹول بیر تھا جو منہ تک آنے سے ذرا پہلے ہی اُٹھے ہاتھ میں قید ہو کر رہ گیا تھا ۔ سامنے، کیا دیکھتا ہے ، دو بلائیں ہاتھوں میں کھوپڑیاں اُٹھائے ، دانت نکوستی اُلٹے پنجوں اُس کی طرف چلی آتی تھیں ۔ وہ سکتے میں آ گیا ۔

جب وہ اُسے اُٹھا کر گھر لائے تو اُس کا بدن پھنک رہا تھا ۔ آنکھیں بند، جبڑے مضبوطی سے بھنچے ہوئے ۔ گول مٹول آدھ پکا بیر ابھی تک اُس کی مٹّھی میں جکڑا ہوا تھا ۔

اماّں رو رہی ہیں مگر وہ چاہتے ہوئے بھی اُن کی دنیا میں واپس  نہیں آ سکتا ، کہ دو ننّھے ننّھے فرشتے اُسے اُٹھائے شمالی اقلیموں کی طرف اُڑے جا رہے ہیں ۔ پھر اُنہوں نے اُس کے چھوٹے سے جسم کو قبر میں اُتارا ، سلیں بچھائیں ، مٹّی دالی اور فاتحہ پڑھ کر جنگل بیابان میں اُسے تن تنہا چھوڑ کر منہ لٹکائے اُلٹے قدموں پھر گئے ۔

آج پہلی بار— کینچوے  نے دیکھا— اُس کی بیوی نے دنوں بعد خود ہی بغلوں کے بال صاف کرلیے تھے ، اور دنوں کی اُداسی کو لبوں سے رخصت کر کے خوب مل مل کر خود بھی نہائی تھی اور ننّے کینچوے  کو بھی نہلایا تھا ۔ پھر اُس نے خود بھی ، شام کو آنے والے اجنبی مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ، بڑا پرتکلّف لباس پہنا اور ننّے کینچوے کو بھی صاف ستھرے اچھّے کپڑے پہنائے ۔

’’بیٹے! ‘‘،   وہ بولی ۔ ’’ گلاب کا وہ پھول دیکھ رہے ہو ؟‘‘اُس نے کھڑکی سے باہر باغ میں گلاب کے پودے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ’’یہ آج صبح ہی  کھلا ہے ‘‘۔

’’امّی ! – اِس پھول میں کیا خاص بات ہے؟‘‘

’’خاص بات؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔ پھر گویا خود اپنے ہی کسی مبہم احساس کو کہرائے شیشوں کے پیچھے واضح طور پر دیکھ لینے کی جستجو میں اُس نے خود اپنے سے دھیمے دھیمے کہنا شروع کیا ۔ ’’ یہ اپنی آنچ سے کھلا ہے ۔ جو چیز اپنی آنچ سے کھلتی ہے ، بہت دنوں تک شاداب رہتی ہے ۔ اور یہ صرف ہمارے لیے کھلا ہے‘‘۔

’’میں نہیں سمجھا، امّی ۔۔۔۔‘‘

’’جانے دو‘‘، اُس  نے کہرائے شیشوں سے لوٹتے ہوئے کہا ۔ ’’جب وہ آئیں تو اچّھی طرح پیش آنا ۔ گھبرانا ذرا نہیں ‘‘۔

’’وہ کون ہیں امّی ؟‘‘

تیسری ، خالی کرسی کی طرف کھوئے پن سے دیکھتے ہوئے اُس نے جواب دیا: ’’وہ بہت اچھے ہیں ۔ اب وہ ہمارے ساتھ ہی رہا کریں گے‘‘۔

ڈش واشر کب کا چلنا بند ہو گیا تھا ۔ اُس نے اٹھ کر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا ۔ اُس کی پیلی اور سفید دونوں ٹانگیں جانے کب، رات کے کس پہر چمپت ہو چکی تھیں ، اور بستر پر جھلسے ہوئے سورج مکھی کی راکھ منتشر پڑی تھی ۔

تھوڑی دیر بعد سب نے دیکھا کہ پو پھٹنے سے ذرا پہلے کےملگجے اندھیرے   میں کینچوا ایک ننّھے  سے کینچوے کی انگلی پکڑے ، زور زور سے ’’ قل ھو اللہ ‘‘ پڑھواتا، مسجد کی طرف جاتا تھا کہ جس کے مینارے سے ایک دل سوز آواز اٹھ رہی تھی: اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search